Maktaba Wahhabi

937 - 2029
موسیقی موسیقی کی شرعی حیثیت السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اسلام میں موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! گانا سننا ایک حرام عمل ہے ،جس کی حرمت پر بے شمار دلائل پائے جاتے ہیں ۔گانا گانے اور سننے کی حرمت پر شیخ صالح المنجد کا تفصیلی فتویٰ پیش خدمت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ " ومن الناس من یشتری لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ " لقمان ( 6 ) اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو لغو باتیں خریدتے ہیں، تا کہ بغیر کسی علم کے اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکیں، اور اسے مذاق بنائیں، انہیں لوگوں کے لیے ذلت ناک عذاب ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی اور مجاہد اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے. (تفسیر طبری ( 3 / 451 ) شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “تو اس میں ہر حرام کلام، اور سب لغو اور باطل باتیں، بکواس اور کفر و نافرمانی کی طرف رغبت دلانے والی بات چیت، اور راہ حق سے روکنے والوں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کے خلاف جھگڑنے والوں کی کلام، اور ہر قسم کی غیبت و چغلی، اور سب و شتم، اور جھوٹ و کذب بیانی، اور گانا بجانا، اور شیطانی آواز موسیقی، اور فضول اور لغو قسم کے واقعات و مناظرات جن میں نہ تو دینی اور نہ ہی دنیاوی فائدہ ہو سب شامل ہیں " تفسیر السعدی ( 6 / 150 ) ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: " لھو الحدیث " یعنی لغو بات خریدنے کی تفسیر میں صحابہ کرام رض اور تابعین عظام کی تفسیر ہی کافی ہے، انہوں نے اس کی تفسیر یہی کی ہے کہ: یہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس ، اور ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم سے یہ صحیح ثابت ہے. ابو الصھباء کہتے ہیں: میں نے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کو اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’ و من الناس من یشتری لھو الحدیث ‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ اس سے مراد کیا ہے تو ان کا جواب تھا: اس اللہ تعالی کی قسم جس کے علاوہ کوئی اور معبود برحق نہیں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے یہ بات تین بار دھرائی ـ. اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے صحیح ثابت ہے کہ اس سے مراد گانا بجانا ہی ہے. اور لھو الحدیث کی تفسیر گانے بجانے، اور عجمی لوگوں کی باتیں اور ان کے بادشاہ اور روم کے حکمران کی خبروں کی تفسیر میں کوئی تعارض نہیں، یا اس طرح کی اور باتیں جو مکہ میں نضر بن حارث اہل مکہ کو سنایا کرتا تھا تا کہ وہ قرآن مجید کی طرف دھیان نہ دیں، یہ دونوں ہی لھو الحدیث میں شامل ہوتی ہیں. اسی لیے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا تھا: لھو الحدیث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے. تو بعض صحابہ کرام رض نے یہ بیان کیا ہے، اور بعض نے دوسری بات بیان کی ہے، اور بعض صحابہ کرام رض نے دونوں کو جمع کر کے ذکر کیا ہے، اور گانا بجانا تو شدید قسم کی لہو ہے، اور بادشاہوں اور حکمرانوں کی باتوں سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ زنا کا زینہ اور پیش خیمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرک پیدا ہوتا ہے، اور شیطان کی شراکت ہوتی ہے، اور عقل میں خمار پیدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ایک ایسی چیز ہے جو قرآن مجید سے روکنے اور منع کرنے والی باطل قسم کی باتوں میں سب سے زیادہ شدید روکنے والی ہے، کیونکہ اس کی جانب نفس بہت زیادہ میلان رکھتا ہے، اور اس کی رغبت کرتا ہے. تو ان آیات کے ضمن میں یہ بیان ہوا ہے کہ قرآن مجید کے بدلے لہو لعب اور گانا بجانا اختیار کرنا تا کہ بغیر علم کے اللہ کی راہ سے روکا جائے اور اسے ہنسی و مذاق بنایا جائے یہ قابل مذمت ہے، اور جب اس پر قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو وہ شخص منہ پھیر کر چل دے، گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں، اور اس کے کانوں میں پردہ ہے، جو کہ بوجھ اور بہرہ پن ہے، اور اگر وہ قرآن مجید میں سے کچھ کو جان بھی لے تو اس سے استھزاء اورمذاق کرنے لگتا ہے، تو یہ سب کچھ ایسے شخص ہی صادر ہوتا ہے جو لوگوں میں سب سے بڑا کافر ہو، اور اگر بعض گانے والوں اور انہیں سننے والوں میں سے اس کا کچھ حصہ واقع ہو تو بھی ان کے لیے اس مذمت کا حصہ ہے " دیکھیں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 258 - 259 ). اور نافع رحمہ اللہ بیان کرتےہیں کہ: " ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بانسری بجنے کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیں اور راستے سے ہٹ کر مجھے کہنے لگے نافع کیا تم کچھ سن رہے ہو ؟ تو میں نے عرض کیا: نہیں، تو انہوں نے اپنے کانوں سے انگلیاں نکال لیں، اور کہنے لگے، میں ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنی تو اسی طرح کیا " (صحیح سنن ابو داود.) کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث اس کی حرمت کی دلیل نہیں کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو اپنے کان بند کرنے کا حکم دیتے، اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی اسی طرح نافع کو حکم دیتے! تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ: وہ اسے غور سے کان لگا کر نہیں سن رہے تھے بلکہ اس کی آواز ان کے کان میں پڑ گئی تھی، اور سامع اور مستمع میں فرق پایا جاتا ہے، سامع صرف سننے والے کو کہتے ہیں،اور مستمع کان لگا کر سننے والے کو کہتے ہیں. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " انسان جو چیز ارادہ اور قصد سے نہ سنے بالاتفاق ائمہ کرام کے اس پر کوئی چیز مرتب نہیں ہوتی نہ تو نہی اور نہ ہی مذمت، اسی لیے کان لگا کر سننے کے نتیجہ میں مذمت اور مدح مرتب ہوتی ہے، نہ کہ سننے کے نیتجہ میں، اس لیے قرآن مجید کان لگا کر سننے والے کو اجروثواب ہو گا لیکن بغیر ارادہ و قصد کے قرآن مجید سننے والے کو کوئی ثواب نہیں، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور اسی طرح گانے بجانے سے منع کیا گیا ہے، اگر وہ بغیر کسی ارادہ و قصد کے سنتا ہے تو اسے ضرر نہیں دےگا "دیکھیں: المجموع ( 10 / 78 ). اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " مستمع وہ ہے جو قصدا اور ارادتا سنتا ہے، اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے ایسا نہیں پایا گیا، بلکہ ان سے سماع پایا گیا ہے، یعنی انہوں نے بغیر کسی ارادہ قصد کے سنا اور اس کی آواز کان میں پڑ گئی اور اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت تھی کہ انہیں آواز بند ہونے کی خبر دی جائے، کیونکہ وہ راستے سے دوسری طرف ہو گئے تھے، اور انہوں نے اپنے کان بند کر لیے تھے، تو وہ دوبارہ اس راستے پر آنے والے نہ تھے، اور نہ ہی آواز ختم ہونے سے قبل کانوں سے انگلیاں نکالنے والے تھے، تو اس لیے ضرورت کی بنا پر مباح کر دیا گیا "دیکھیں: المغنی ابن قدامہ ( 10 / 173 ). لگتا ہے کہ دونوں اماموں کی کلام میں مذکور سماع مکروہ ہو، اور ضرورت کی بنا پر مباح کیا گیا ہو، جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے قول میں آگے بیان کیا جائیگا، واللہ اعلم. اس کے متعلق آئمہ اسلام کے اقوال: قاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " گانا بجانا باطل میں سے ہے " اور حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اگر ولیمہ میں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس کی دعوت قبول نہیں "دیکھیں: الجامع للقیروانی صفحہ نمبر ( 262 - 263 ). اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " آئمہ اربعہ کا مذہب ہے کہ گانے بجانے کے سب آلات حرام ہیں، صحیح بخاری وغیرہ میں ثابت ہے کہ: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ان کی امت میں کچھ ایسے لوگ بھی آئینگے جو زنا اور ریشم اور شراب اور گانا بجانا حلال کر لیں گے " اور اس حدیث میں یہ بیان کیا کہ ان کی شکلیں مسخ کر کے انہیں بند اور خنزیر بنا دیا جائیگا.... اور آئمہ کرام کے پیروکاروں میں سے کسی نے بھی گانے بجانے کے آلات میں نزاع و اختلاف ذکر نہیں کیا "دیکھیں: المجموع ( 11 / 576 ). علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: " مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ گانے بجانے کے آلات حرام ہیں "دیکھیں: السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ( 1 / 145 ). اور حنبلی مسلک کے محقق ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں: " گانے بجانے کی تین اقسام ہیں: پہلی قسم: حرام. وہ بانسری اور سارنگی اور ڈھول اور گٹار وغیرہ بجانا ہے. تو جو شخص مستقل طور پر اسے سنتا ہے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائیگی، وہ گواہی میں مردود ہے "دیکھیں: المغنی ابن قدامہ ( 10 / 173 ). اور ایک دوسری جگہ پر کہتے ہیں: " اور اگر اسے کسی ایسے ولیمہ کی دعوت ملے جس میں برائی ہو مثلا شراب نوشی، گانا بجانا، تو اس کے لیے اگر وہاں جا کر اس برائی سے منع کرنا ممکن ہو تو وہ اس میں شرکت کرے اور اسے روکے، کیونکہ اس طرح وہ دو واجب کو اکٹھا کر سکتا ہے، اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو پھر وہ اس میں شرکت نہ کرے "دیکھیں: الکافی ( 3 / 118 ). طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " سب علاقوں کے علماء کرام گانے بجانے کی کراہت اور اس سے روکنے پر متفق ہیں، صرف ان کی جماعت سے ابراہیم بن سعد،اور عبید اللہ العنبری نے علیحدگی اختیار کی ہے. اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے کہ: " آپ کو سواد اعظم کے ساتھ رہنا چاہیے، اور جو کوئی بھی جماعت سے علیحدہ ہوا وہ جاہلیت کی موت مرا "دیکھیں: تفسیر قرطبی ( 14 / 56 ). پہلے ادوار میں کراہت کا لفظ حرام کے معنی میں استعمال ہوتا تھا لیکن پھر بعد میں اس پر تنزیہ کا معنی کا غالب آگیا، اور یہ تحریم کا معنی اس قول لیا گیا ہے: اور اس سے روکا جائے، کیونکہ جو کام حرام نہیں اس سے روکا نہیں جاتا، اور اس لیے بھی کہ دونوں حدیثوں میں اس کا ذکر ہوا ہے، اور اس میں بہت سختی سے منع کیا گیا ہے. اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے ہی اس اثر کو نقل کیا ہے، اور اس کے بعد وہی یہ کہتے ہیں: " ہمارے اصحاب میں سے ابو الفرج اور ابو قفال کہتے ہیں: گانا گانے اور رقص کرنے والے کی گواہی قبول نہیں ہو گی " میں کہتا ہوں: اور جب یہ چیز ثابت ہو گئی کہ یہ جائز نہیں تو پھر اس کی اجرت لینا بھی جائز نہیں" شیخ فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں: " ابراہیم بن سعد اور عبید اللہ عنبری نے جو گانا مباح قرار دیا ہے وہ اس گانے کی طرح نہیں جو معروف ہے ..... تو یہ دونوں مذکور شخص کبھی بھی اس طرح کا گانا مباح نہیں کرتے جو انتہائی غلط اور گرا ہوئی کلام پر مشتمل ہے "ماخوذ از: الاعلام. ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " گانے بجانے کے آلات تیار کرنا جائز نہیں "دیکھیں: المجموع ( 22 / 140 ). اور دوسری جگہ کہتے ہیں: " گانے بجانے کے آلات مثلا ڈھول وغیرہ کا تلف اور ضائع کرنا اکثر فقھاء کے ہاں جائز ہے، امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک یہی ہے، اور امام احمد کی مشہور روایت یہی ہے "دیکھیں: المجموع ( 28 / 113 ). اور ان کا یہ بھی کہنا ہے: " چھٹی وجہ: ابن منذر رحمہ اللہ گانے بجانے اور نوحہ کرنے کی اجرت نہ لینے پر علماء کرام کا اتفاق ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اہل علم میں سے جس سے بھی ہم نے علم حاصل کیا ہے ان سب کا گانے والی اور نوحہ کرنے والی کو روکنے پر اتفاق ہے، شعبی اور نخعی اور مالک نے اسے مکروہ کہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنیفہ ـ اور یعقوب اور محمد ـ امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ کہتے ہیں: گانا گانے اور نوحہ کرنے کے لیے اجرت پر کوئی بھی چیز دینا جائز نہیں، اور ہمارا قول بھی یہی ہے " اور ان کا یہ بھی کہنا ہے: گانا بجانا نفس کی شراب ہے، اور اسے خراب کر دیتا ہے، اور یہ نفس کے ساتھ وہ کچھ کرتا ہے جو شراب کا جام بھی نہیں کرتا "دیکھیں: مجموع الفتاوی ( 10 / 417 ). ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتویٰ کمیٹی محدث فتویٰ
Flag Counter