Maktaba Wahhabi

100 - 531
سمجھا کہ یہ واضح کر دوں کہ یہ کہانی بالکل باطل اور محض جھوٹی ہے جسے کوئی عقل مند آدمی بھی سچی کہانی نہیں سمجھ سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود اس محمد مصری نامی شخص نے یا کسی اور نے اپنے گھٹیا اغراض و مقاصد کے لیے گھڑا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جو اپنے گھر والوں کی بات سن رہا ہو، ڈاکٹر کی بات سن رہا ہو اور اپنے جنازہ کے ساتھ جانے والوں کی بات سن رہا ہو تو ڈاکٹر یا کسی اور سے یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ یہ انسان مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، پھر ایک طرف تو یہ بیان کر رہا ہے کہ یہ بے ہوش تھا لیکن پھر اسے وہ سب کچھ یاد بھی ہے جو اس کے گرد و پیش میں ہوا اور پھر اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ جو شخص قبر جیسی بند اور تنگ جگہ میں اتنی مدت گزارے اور وہ زندہ بھی ہو تو اس کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ نیز شریعت کی روشنی سے یہ بات واضح ہے کہ اگر کسی زندہ انسان کو قبر میں رکھ دیا جائے تو اس کے پاس دو فرشتے نہیں آتے، کیونکہ یہ دو فرشتے تو اس انسان کے پاس آتے ہیں جو واقعی فوت ہو چکا ہو اور اللہ سبحان و تعالیٰ کو تو سب زندوں اور مردوں کا علم ہے اور وہی میت کے پاس سوال کرنے کے لیے دو فرشتے بھیجتا ہے، پھر اس کذاب آدمی نے فرشتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو فرشتے نہیں بلکہ دو انسان ہیں اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ دو فرشتے انسان کو اس کی نیکیوں اور برائیوں کے بارے میں نہیں بتاتے بلکہ اس سے رب، دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اگر میت صحیح جواب دے دے تو وہ حصول جنت میں کامیاب ہے اور اگر جواب صحیح نہ دے سکے تو پھر اسے عذاب ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اس نے جو عجیب و غریب مناظر بیان کئے ہیں اس سے وہ صرف اپنی اس باطل اور جھوٹی کہانی کو مشہور کرنا اور لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں میں سے ہے تاکہ لوگ اس سے محبت و شفقت کا سلوک کریں اور یہ جو کچھ ان سے طلب کرے وہ اس کو دے دیں یا مانگے بغیر ہی اسے دینا شروع کر دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مقصد حصول شہرت ہو تاکہ لوگ اسے اپنے پاس بلا بلا کر اس کے مشاہدات کے بارے میں اس سے پوچھیں اور اس طرح اسے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہو۔ اس کی جہالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے اس جھوٹی کہانی کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ’’صدف کی مشیت سے میرے گھر والے میری قبر کی زیارت کے لیے آئے۔‘‘یہ بات جائز نہیں، کیونکہ صدف کی کوئی مشیت نہیں ہوتی، صحیح بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی مرضی و مشیت سے۔‘‘خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت کہانی ہے جس میں ذرہ بھر صداقت نہیں جیسا کہ سیاق و سباق سے اور اس کی تفصیل سننے سے واضح ہوتا ہے۔ ہمارے موقر اخبارات و رسائل کو بھی اس طرح کی خرافات شائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اخبارات کو ہر قسم کے جھوٹ اور باطل سے پاک کر دے، مکاروں اور فریب کاروں کو ذلیل و رسوا کر ے، مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے اور تمام مسلمانوں کو دین میں فقاہت و ثابت قدمی عطا فرمائے۔ انه سبحانه خير مسئول‘ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔ ۔۔۔عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قبریں الگ ہونی چاہئیں؟ سوال: کیا یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قبریں عیسائیوں یا دیگر اہل مذاہب کی قبروں سے الگ ہوں یا کسی تمیز کے بغیر سب قبریں ایک جگہ بھی ہو سکتی ہیں؟
Flag Counter