Maktaba Wahhabi

107 - 531
الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَعْنِي شِدْقَيْهِ يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ) (صحيح البخاري‘ الزكاةّ باب اثم مانع الزكاة‘ ح: 1403) ’’جسے اللہ تعالیٰ مال عطا فرمائے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل میں ڈھال دیا جائے گا، جس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، اس سانپ کو اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا جو اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: (وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللّٰهُ مِن فَضْلِهِۦ هُوَ خَيْرً‌ۭا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ‌ۭ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا۟ بِهِۦ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ۗ) (آل عمران 3/180) ’’جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے، بخل کرتے ہیں وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں (وہ اچھا نہیں) بلکہ ان کے لیے برا ہے، وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔‘‘ زکوٰۃ چار قسم کے اموال میں واجب ہے (1)زمین کی پیداوار یعنی دانوں اور پھلوں میں۔ (2) جنگل و صحراء میں چرنے والے چوپایہ جانوروں میں (3) سونے اور چاندی میں اور (4) سامان تجارت میں۔ ان چار قسموں کا نصاب مقرر ہے، اس سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں، چنانچہ دانوں اور پھلوں کا نصاب پانچ وسق ہے اور ایک وسق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کے حساب سے ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ گویا کھجور، کشمش، گندم، چاول اور جو وغیرہ کا نصاب تین سو صاع ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کا اندازہ ایک معتدل آدمی کے دونوں بھرے ہوئے ہاتھوں کی چار لپوں کے برابر ہے۔ جنگلات میں چرنے والے اونٹ، گائے، بکری اور دیگر جانوروں کا نصاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے جنہیں اس سے دلچسپی ہو وہ اہل علم سے پوچھ سکتے ہیں، اگر اختصار مقصود نہ ہوتا تو ہم اس کی تفصیل بھی بیان کر دیتے۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے۔ سعودی عرب کی کرنسی کے حساب سے یہ چھپن ریال کے برابر ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔ سعودی گنیوں کے حساب سے اس کی مقدار ۱۱ صحیح ۳بٹا ۷ گنی ہے جو شخص سونے اور چاندی یا دونوں میں سے ایک کے نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ نفع اصل زر کے تابع ہوتا ہے، لہذا اس کے لیے نئے سال کی ضرورت نہیں ہوتی، جس طرح کہ چوپایوں کے بچے اپنے اصل کے تابع ہوتے ہیں، لہذا جب چوپاؤں کا نصاب مکمل ہو تو ان کے بچوں کے لیے نئے سال کی ضرورت نہیں بلکہ وہ انہی کے ساتھ شمار ہوں گے۔
Flag Counter