Maktaba Wahhabi

111 - 531
’’جو شخص یتیم کا ولی ہو اسے چاہیے کہ اس کے مال کے ساتھ تجارت کرے، اسے اسی طرح نہ چھوڑ دے تاکہ اسے زکوٰۃ ہی کھا جائے۔‘‘ امام مالک نے موطا میں عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اپنے باپ سے، کہ میں اور میرا بھائی دونوں یتیم تھے، ہم حضرت عائشہ کی گود میں پرورش پا رہے تھے، وہ ہماری ولیہ تھیں اور ہمارے اموال کی زکوٰۃ ادا فرمایا کرتی تھیں۔[1] حضرت علی، ابن عمر، جابر، عائشہ اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ’’یتیم اور دیوانے کے مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہے‘‘ جیسا کہ ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ مال کی زکوٰۃ ماہانہ تنخواہ کی زکوٰۃ سوال: میں ایک مقامی کمپنی میں ملازم ہوں اور تقریبا چار ہزار سعودی ریال تنخواہ لیتا ہوں جس میں ایک ہزار سعودی ریال مکان کا کرایہ ہے۔ کیا میری اس تنخواہ پر بھی زکوٰۃ واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو کتنی؟ یاد رہے کہ اس تنخواہ کے علاوہ میرا کمائی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے؟ جواب: اگر تمہاری اس ماہانہ تنخواہ سے کچھ رقم بچ جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی بشرطیکہ بچی ہوئی رقم نصاب کے مطابق ہو جو سعودی کرنسی کے مطابق چار سو ریال ہے اور اس پر ایک سال بھی گزر جائے۔ اگر ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے جمع کرتے ہو تو احتیاط اور آسانی اس میں ہے کہ آپ ہر سال زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ایک مہینہ مقرر کر لیں، جس میں اس سال کی اور سابقہ جمع شدہ پونجی کی زکوٰۃ ادا کر دیں مال کا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، یعنی زکوٰۃ کی شرح اڑھائی فی صد سالانہ ہے۔ واللہ الموفق ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ شادی کے لیے جمع کیے ہوئے مال کی زکوٰۃ سوال: ایک آدمی اپنے بیٹے کی شادی کے لیے کئی سالوں سے مال جمع کر رہا ہے تو کیا اس پر اس مال کی زکوٰۃ واجب ہے؟ یاد رہے اس مال کے جمع کرنے سے اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے بیٹے کی شادی کا انتظام کرنا ہے؟ جواب: اس آدمی کو جمع شدہ تمام رقوم کی زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گی بشرطیکہ جمع شدہ رقوم پر ایک سال گزر جائے، خواہ وہ بچے کی شادی ہی کے لیے جمع کیا گیا ہو، کیونکہ یہ رقوم جب تک اس کے پاس ہیں، اس کی ملکیت ہیں، لہذا اسے ہر سال ان کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے تا آنکہ یہ رقوم شادی پر خرچ نہ ہو جائیں۔ کتاب و سنت کے دلائل کے عموم سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter