Maktaba Wahhabi

116 - 531
عمارت بنانے کے لیے رکھی ہوئی زمین پر زکوٰۃ نہیں خواہ۔۔۔ سوال: میں ایک مصری نوجوان ہوں سعودیہ میں کام کرتا ہوں اور مصر میں کرایہ کے ایک مکان میں رہتا ہوں یعنی مصر میں ابھی تک میرا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو اب میں نے اپنے شہر میں ایک پلاٹ خریدا ہے جس کی قیمت آٹھ ہزار پانچ سو مصری جنیہ ہے اور اس پلاٹ پر رہائش کے لیے گھر بنانے کے لیے میں نے مصر کے اسلامی بینک میں مبلغ سترہ ہزار پانچ سو مصری جنیہ بھی جمع کرا رکھی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کیا اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو کتنی؟ اس پلاٹ کی تعمیر کے لیے بینک میں جو رقم جمع کی گئی ہے، کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟ اگر ہے تو کتنی؟ جواب: اس زمین پر زکوٰۃ نہیں ہے جسے عمارت بنانے کے لیے رکھا گیا ہو خواہ یہ عمارت (ذاتی) رہائش کے لیے بنائی جائے یا کرایہ پر دینے کے لیے، کیونکہ زکوٰۃ تو اس زمین پر ہے جو تجارت و بیع کے لیے رکھی ہو۔ جو ذاتی استعمال یا رہائش کے لیے ہو جیسے کہ یہ زمین، تو اس پر زکوٰۃ نہیں لیکن بینک میں رکھی ہوئی رقم پر زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ وہ مکان بنانے یا شادی کرنے پر ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے رکھی ہو اور مقدار زکوٰۃ اڑھائی فی صد یعنی ایک ہزار میں سے صرف پچیس ہیں۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ زمین کی زکوٰۃ سوال: میرے پاس ایک پلاٹ ہے جسے میں استعمال میں نہیں لا رہا بلکہ اسے میں نے ضرورت کے لیے رکھا ہوا ہے۔ کیا اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب ہے؟ اور جب اس کی زکوٰۃ ادا کروں تو کیا ہر مرتبہ اس کی قیمت کا اندازہ مقرر کروں؟ جواب: آپ پر اس پلاٹ کی زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ سامان کی قیمت پر اس وقت زکوٰۃ واجب ہے جبکہ وہ بغرض تجارت ہو، زمین، جائیداد، گاڑیوں اور قالینوں وغیرہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اور اگر ان اشیاء سے مال یعنی روپیہ کمانا مقصود ہو بایں طور کہ یہ خریدوفروخت اور تجارت کے لیے ہوں تو پھر ان کی قیمت میں زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر یہ اشیاء بغرض تجارت نہ ہوں جیسا کہ آپ نے سوال میں پوچھا ہے تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ تجارتی زمین پر زکوٰۃ سوال: جو اراضی خریدو فروخت (تجارت) کے لیے ہوں ان کی زکوٰۃ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: جو زمینیں خرید وفروخت کے لیے ہوں اُن پر زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ یہ سامان تجارت ہیں اور کتاب و سنت کے ان دلائل کے عموم میں داخل ہیں جوزکوٰۃ کے وجوب میں نازل ہوئے جن میں سے ایک دلیل یہ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَ‌ٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) (التوبة 9/103) ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے اور اس کے ذریعے ان کے ظاہر و باطن کو پاک کیجئے۔‘‘ اور دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس کو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے: (فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ) (سنن ابي داود‘
Flag Counter