Maktaba Wahhabi

127 - 531
باہمی تعاون کے لیے جمع کئے ہوئے مال پر زکوٰۃ کا حکم سوال: ایک جماعت کے افراد نے باہمی تعاون اور استفادہ کے لیے کچھ مال جمع کیا ہے کہ اگر کسی کو (اللہ نہ کرے) کوئی حادثہ پیش آ جائے یا عام حالات میں کسی کو کوئی ضرورت پیش آ جائے تو وہ اس سے استفادہ کر سکے۔ اس مال کو جمع کئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟ جواب: یہ اور ان جیسے ایسے اموال پر زکوٰۃ نہیں ہے جنہیں لوگوں نے مصالح عامہ اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں تعاون کے لیے عطیہ کے طور پر دئیے ہوں، کیونکہ ان کے مالکان نے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے وقف کر دیا ہے اور ان کے فائدے فقیر و دولت مند سب لوگوں کے لیے مشترک ہیں کہ انہیں پیش آمدہ حوادث کی وجہ سے لاحق ہونے والی مشکلات کے ازالہ کے لیے رکھا گیا ہے، لہذا انہیں ان کو ذاتی ملکیت سے خارج تصور کر کے ایسے صدقات کے حکم میں سمجھا جائے گا جو انہیں مقاصد کے لیے خرچ کئے جاتے ہیں جن کی خاطر وہ جمع کئے گئے ہوں۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ زکوٰۃ اور اموال اوقاف سوال: کیا مساجد کے لیے وقف شدہ اموال میں زکوٰۃ واجب ہے؟ جواب: مساجد وغیرہ کے لیے وقف اموال زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ یہ اموال کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے اور اس مسئلہ میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ وقف میں زکوٰۃ نہیں سوال: مغترہ میں واقع ایک نخلستان ہے جس میں درختوں کی چھ قطاریں ہیں۔ ایک کسان کو اس کی دیکھ بھال کے لیے اس شرط پر مقرر کیا گیا ہے کہ اسے پھل کا تین چوتھائی حصہ ملے گا اور ایک چوتھائی وصیت کرنے والے کو، تو کیا وصیت کرنے والے کے ایک چوتھائی حصہ میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ یاد رہے وصیت کرنے والے کا ایک چوتھائی حصہ جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کی ضرورت کے لیے کافی نہیں ہے۔ جواب: اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے تو وصیت کرنے والے کے حصہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ وقف ہے اور اس کا سارا مصرف نیکی و بھلائی کا کام ہی ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
Flag Counter