Maktaba Wahhabi

133 - 531
انہی مصارف میں سے مقروض بھی ہیں۔ مقروضوں کی دو قسمیں ہیں (1)وہ شخص جو ایک بہت بڑی جماعت کے مابین صلح کرانے کی وجہ سے مقروض ہو گیا ہو وہ اس طرح کہ دو قبیلوں یا دو بستیوں کے باشندوں کے خون یا مال کے تنازعات کی وجہ سے آپس میں عداوت و دشمنی پیدا ہو گئی ہو اور یہ شخص ان دونوں جماعتوں کی عداوتوں و دشمنی ختم کرانے اور ان کے درمیان صلح کرانے کی ذمہ داری اٹھا لے، تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے تاکہ یہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر سکے، خواہ یہ دولت مند تو ہو لیکن اپنے مال کو خرچ نہ کرنا چاہے اور اگر یہ اپنے مال کو خرچ کر دے تو پھر اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ (2) وہ مقروض جس نے کفار سے اپنے آپ کو رہائی دلانے کے لیے یا کسی مباح چیز کے خریدنے کے لیے یا کسی ایسی حرام چیز خریدنے کے لیے جس سے اس نے توبہ کر لی ہو، قرض لیا ہو اور وہ فقیر ہو تو اسے اپنا قرض ادا کرنے کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ ساری زکوٰۃ ایک ہی خاندان کو دے دینا سوال: انسان جب اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر لے اور وہ بہت تھوڑی مقدار میں ہو مثلا دو سو ریال تو کیا افضل یہ ہے کہ وہ ساری زکوٰۃ ایک ہی ضرورت مند و محتاج خاندان کو دے دے یا اسے یہ زکوٰۃ مختلف ضرورت مند گھروں میں تقسیم کرنی چاہیے؟ براہ کرم میری راہنمائی فرمائیں۔ جواب: زکوٰۃ اگر کم ہو تو اسے ایک ہی ضرورت مند گھر کو دے دینا بہتر اور افضل ہے، کیونکہ زکوٰۃ کی رقم اگر کم ہو تو اسے زیادہ گھروں میں تقسیم کرنے سے اس کی منفعت کم ہو گی۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ ماں کو زکوٰۃ نہ دی جائے، تارک نماز، زکوٰۃ کا مستحق نہیں سوال: کیا یہ جائز ہے کہ میں اپنی والدہ کو کچھ مال دوں اور پھر زکوٰۃ میں شمار کر لوں، حالانکہ میرے والد صاحب میری والدہ صاحبہ پر خرچ کرتے اور ان کی مالی حالت بھی الحمدللہ اچھی ہے؟ اسی طرح میرا ایک بھائی بھی ہے جو کام کرتا ہے، اس نے ابھی تک شادی بھی نہیں کی لیکن (اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے) وہ نماز کی زیادہ حفاظت نہیں کرتا، کیا میں اسے کچھ زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟ راہنمائی کیجئے اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے! جواب: آپ کے لیے اپنی والدہ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، کیونکہ والدین زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں اور پھر آپ کے والد صاحب کے خرچ کرنے کی وجہ سے انہیں زکوٰۃ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ باقی رہا آپ کا بھائی تو جب تک وہ تارک نماز ہے اسے بھی زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ شہادتین کے بعد نماز اسلام کا سب سے بڑا رکن ہے اور اسے جان بوجھ کر چھوڑ دینا کفر اکبر ہے اور پھر وہ صحت مند بھی ہے اور کماتا بھی ہے اور اگر اس پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے لیے آپ کے والد صاحب زیادہ ذمہ دار ہیں، کیونکہ خرچ کرنے کے اعتبار سے یہ ان کی ذمہ داری ہے بشرطیکہ انہیں اس کی استطاعت ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور حق کی طرف اس کی راہنمائی فرمائے اور اسے اپنے نفس، شیطان اور برے ساتھیوں کے شر سے بچائے! ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ قرض اور زکوٰۃ کیا قرض مانع زکوٰۃ ہے؟ سوال: (الف) ایک شخص تجارت کرتا اور غیر ملکی کمپنیوں سے کچھ مدت تک کے لیے ادھار پر معاملہ کرتا ہے۔ ایک سال گزر جاتا ہے اور اس کے ذمہ بہت زیادہ قرض ہے۔ اگر وہ سال گزرنے سے چند دن پہلے ان کمپنیوں کے قرض ادا کر دے تاکہ بطور قرض ادا کی جانے والی رقم کی زکوٰۃ سے بچ سکے تو کیا وہ گناہ گار تو نہ ہو گا؟ (ب) اگر اس کے مال کی تفصیل درج ذیل ہو تو وہ زکوٰۃ کس طرح ادا کرے؟ سال کے اختتام پر سٹور میں موجود مال کی قیمت۔۔۔200000 ریال اس کے ذمہ قرض۔۔۔300000 ریال اس نے جو قرض لینا ہے۔۔۔200000 ریال بینک میں موجود رقم۔۔۔ 100000 ریال (ج) بعض رقوم کے ادا کرنے کا وقت تو آ گیا ہو لیکن اس نے ادا کرنے میں کچھ تاخیر کر دی ہو ہاں البتہ ان رقوم کو ادا کرنے کے لیے اس نے انہیں تجوری سے الگ کر دیا ہو اور ادا کیے جانے والے قرض سے بھی انہیں علیحدہ کر دیا ہو تو کیا ان کی زکوٰۃ اسے معاف ہو گی؟ جواب: اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے اپنے ذمہ قرض ادا کر دے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں، خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مقروض لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ ’’وہ زکوٰۃ کا وقت آنے سے پہلے پہلے قرض ادا کر دیں۔ صاحب قرض اگر اپنا کچھ قرض معاف کر دے تاکہ اسے باقی قرض وصول ہو جائے تو اس میں بھی علماء کے صحیح قول کے مطابق کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس میں مقروض کی بھی مصلحت ہے اور قرض خواہ کی بھی اور پھر اس میں سود بھی نہیں ہے۔ سٹور میں موجود سازوسامان کی قیمت پر سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی، اسی طرح بینک میں موجود رقم پر بھی سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ آپ نے لوگوں سے جو قرض لینا ہے اس میں تفصیل ہے، کہ جو قرض آپ نے خوش حال لوگوں سے لینے ہیں اور جن کے ملنے کی امید ہے تو ان میں سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ہو گی، کیونکہ اس طرح کے قرض کی مثال بینک میں رکھی ہوئی رقم کی سی ہے اور جو قرض تنگ دست لوگوں سے لینا ہے تو علماء کے صحیح قول کے مطابق اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ بعض اہل علم کے بقول قرض کی وصولی کے بعد صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی، یہ بہترین قول ہے اور اس میں احتیاط بھی ہے لیکن صحیح قول کے مطابق یہ واجب نہیں ہے، کیونکہ زکوٰۃ ان اموال میں واجب نہیں ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ وصول ہوں گے یا نہیں؟ اس لیے کہ وہ تنگ دست یا ٹال مٹول سے کام لینے والوں کے ذمہ ہیں اور ان کی مثال مفقود اموال یا گم شدہ جانوروں کی طرح ہے۔
Flag Counter