Maktaba Wahhabi

139 - 531
صدقۂ فطر صدقۂ فطر کا حکم اور مقدار سوال: کیا صدقۂ فطر واجب ہے یا سنت؟ نیز یہ کس پر واجب ہے؟ جواب: صدقۂ فطر تمام مسلمانوں پر واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے سب پر فرض قرار دیا ہے۔[1] اس کی مقدار کھانا، کھجور، جو، کشمش، پنیر وغیرہ کا ایک صاع ہے اور آپ نے حکم دیا ہے کہ اسے عید الفطر کی نماز کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے، یہ فریضۂ نبویہ ہے، رمضان کے اختتام پر اسے ادا کرنے کا حکم ہے تاکہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے روزہ پاک ہو جائے اور مسکینوں کو کھانا میسر آ سکے اور وہ عید کے دن لوگوں سے مانگنے اور سوال کرنے سے بے نیاز ہو جائیں۔واللہ الموفق۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ صدقۂ فطر کن چیزوں سے؟ سوال: کھانے کی وہ کون سی اشیاء ہیں جنہیں صدقۂ فطر کے طور پر دیا جا سکتا ہے؟ جواب: حدیث میں آیا ہے کہ صدقۂ فطر پانچ چیزوں یعنی گندم، جو ، کھجور، کشمش اور پنیر سے ادا کیا جائے۔[2] بعض علماء محققین نے ذکر کیا ہے کہ ان پانچ اشیاء کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس دور میں کھانے کے طور پر صرف یہی اشیاء مستعمل تھیں اور انہوں نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ ان کے علاوہ بھی اگر کوئی چیز کسی علاقے کی اکثر وبیشتر خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہو مثلا چاول اور مکئی وغیرہ تو اسے صدقۂ فطر کے طور پر دینا جائز ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ نماز عید سے قبل صدقہ ادا کرنا بھول جانا سوال: میں نے عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کے لیے تیار کیا تاکہ اسے ایک ایسے فقیر کو دے دوں جس کو میں جانتا تھا لیکن میں بھول گیا اور مجھے نماز میں یاد آیا اور میں نے نماز کے بعد ادا کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: کوئی حرج نہیں! سنت یہ ہے کہ صدقۂ فطر نماز عید سے پہلے پہلے ادا کیا جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے[3] لیکن جو آپ نے کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں نماز کے بعد بھی صدقۂ فطر ادا ہو جائے گا
Flag Counter