Maktaba Wahhabi

140 - 531
اگرچہ حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک عام صدقہ ہو گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ صدقہ ہو گا ہی نہیں، لہذا امید ہے یہ مقبول ہو گا کیونکہ آپ نے اسے عمدا مؤخر نہیں کیا بلکہ بھول جانے کی وجہ سے مؤخر کیا ہے اور فرمان باری تعالیٰ ہے: (رَ‌بَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرة 2/286) ’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا خطا ہو گئی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے جواب میں فرمایا: (يقول اللّٰه عزوجل قد فعلت) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب بيان تجاوز اللّٰه...الخ‘ ح: 126) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری دعا کو قبول کر لیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی اس دعا کو قبول فرما لیا ہے کہ وہ بھول چوک کی صورت میں ان سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر میں تاخیر سوال: کیا یہ جائز ہے کہ انسان اپنے مال کی زکوٰۃ یا صدقۂ فطر کو محفوظ رکھے تاکہ اسے کسی ایسے فقیر کو دے جو ابھی تک اس کے پاس نہیں آیا؟ جواب: اگر مدت تھوڑی ہو اور زیادہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ آپ زکوٰۃ کو محفوظ رکھیں اور اسے بعض فقیر رشتہ داروں کو یا ایسے فقیروں کو دے دیں جن کا فقر اور ضرورت شدید ہو لیکن یہ مدت زیادہ لمبی نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ بات زکوٰۃ کے حوالہ سے ہے۔ جہاں تک صدقۂ فطر کا تعلق ہے تو اسے مؤخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ واجب ہے کہ اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے،[1] ہاں البتہ عید سے ایک دو یا تین دن پہلے ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اسے نماز کے بعد تک مؤخر نہ کیا جائے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ صدقۂ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنا سوال: صدقۂ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ کچھ لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں؟ جواب: کسی بھی مسلمان سے یہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ دین حنیف اسلام کا سب سے اہم رکن ہے، یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ لا الہ الا اللہ کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کی جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کی جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ سکھایا ہے۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ صدقۂ فطر ادا کرنا ایک عبادت ہے اور عبادات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں، لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کوئی بھی عبادت شارع علیہ السلام کے بتائے ہوئے
Flag Counter