Maktaba Wahhabi

142 - 531
و درہم کی صورت میں بھی ضرور صدقۂ فطر ادا فرماتے ۔ جانوروں کی زکوٰۃ میں کمی بیشی کو دینارو درہم سے پورا کرنے کے بارے میں جو آتا ہے تو یہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے جسے ادا کرنا واجب ہو لیکن وہ موجود نہ ہو اور یہ بھی ان صورتوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کا احادیث میں ذکر آیا ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ عبادات کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی صحابی کے بارے میں یہ علم نہیں کہ انہوں نے نقدی کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کیا ہو جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سب لوگوں سے زیادہ جانتے بھی تھے اور سنت رسول کے مطابق عمل کرنے کا شوق بھی سب لوگوں سے زیادہ رکھتے تھے۔ اگر انہوں نے نقدی کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کیا ہوتا تو یہ بھی منقول ہوتا جس طرح ان کے امور شریعت سے متعلق دیگر اقوال و افعال منقول ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ ٱللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب 33/21) ’’البتہ تحقیق تمہارے لیے (اے مسلمانو!) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘اور فرمایا: ﴿وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّ‌ضِىَ ٱللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِ‌ى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ‌ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ (التوبه 9/100) ’’جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے ) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصا رمیں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے ایک طالب حق کے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نقدی کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جو شخص نقدی کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کرے گا تو اس کا یہ صدقہ ادا نہیں ہو گا کیونکہ اس کا یہ عمل مذکورہ ادلہ شرعیہ کے خلاف ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو اپنے دین میں فقاہت (سمجھ بوجھ) اور دین پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور ہر اس چیز سے بچائے جو اس کی شریعت کے مخالف ہو۔ انه جواد كريم‘ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ صدقۂ فطر اپنے شہر کے فقراء میں تقسیم کیا جائے سوال: کیا فطرانہ اپنے ہی شہر کے فقراء میں تقسیم کیا جائے یا دوسروں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہم نے عید الفطر سے تین دن پہلے سفر کرنا ہو تو پھر کس طرح فطرانہ ادا کریں؟ جواب: سنت یہ ہے کہ صدقۂ فطر اپنے ہی شہر کے فقراء میں تقسیم کیا جائے اور یہ نماز عید سے پہلے، عید کے دن کی صبح تقسیم کر دیا جائے۔ عید سے ایک یا دو دن پہلے تقسیم کرنا بھی جائز ہے یعنی رمضان المبارک کی اٹھائیس تاریخ سے تقسیم کرنا شروع کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص عید سے ایک یا دو دن پہلے سفر کرے تو وہ اسی اسلامی ملک میں تقسیم کرے جہاں سفر کر
Flag Counter