کے جا رہا ہو اور اگر وہ غیر اسلامی ملک ہو تو وہاں مسلمان فقراء کو تلاش کر کے ان میں تقسیم کر دے اور اگر سفر اس وقت شروع ہو جب صدقۂ فطر ادا کرنا جائز ہو تو پھر اپنے ہی شہر ہی میں تقسیم کر دے کیونکہ مقصود فقیروں کی ہمدردی و خیر خواہی، ان کے ساتھ نیکی اور انہیں عید کے دن لوگوں سے مانگنے سے روکنا ہے۔
۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
فقیہ شہر کے پاس صدقۂ فطر جمع کرانا
ہم صدقۂ فطر اکٹھا کر کے فقیہ شہر کے پاس جمع کرا دیتے ہیں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص روزہ رکھے اس کے لیے یہ واجب ہے کہ صدقۂ فطر فقیہ شہر کے پاس جمع کرائے، کیا ہمارا یہ موقف صحیح ہے؟
جواب: اگر یہ فقیہ امین ہو اور فقراء میں صدقہ تقسیم کر دیتا ہو تو لوگوں کے لیے اس کے پاس اپنا فطرانہ جمع کرانے میں کوئی حرج نہیں تاکہ یہ فقراء میں تقسیم کر دے لیکن فقیہ کے پاس عید سے ایک یا دو دن پہلے جمع کرانا چاہیے تاکہ وہ اسے عید کے دن تقسیم کر دے۔
۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
صدقۂ فطر فقراء ہی کو دیا جائے
سوال: ایک شخص جو شہر سے دور کسی جنگل میں رہتا ہو اور اس کے پڑوسی درمیانی حیثیت کے ہوں، یعنی امیر نہ فقیر تو کیا وہ انہیں فطرانہ دے سکتا ہے؟
جواب: فطرانہ کی فرضیت میں حکمت یہ ہے کہ عید کے دن فقراء کی ضرورت کو پورا کر دیا جائے تو جو شخص فقیر نہ ہو وہ فطرانے کا مستحق نہیں ہے۔ اگر اپنے ماحول میں کوئی فقیر شخص نہ ہو تو فطرانہ کسی قریب ترین شہر کے فقراء میں تقسیم کے لیے بھیج دینا چاہیے اور وہاں کسی کو اپنا نائب مقرر کر دینا چاہیے جو صدقۂ فطر کو وقت مقررہ کے اندر اندر فقراء میں تقسیم کر دے۔
۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
|