Maktaba Wahhabi

193 - 531
(فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۚ) (البقرة 2/184) ’’ جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی پوری کرے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ أَنْ يُوتَى رُخْصُهُ، كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُوتَى مَعْصِيَتُهُ) (مسند احمد: 2/108) ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو اختیار کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کے کاموں کو اختیار کیا جائے۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (كَمَا يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى عَزَائِمُهُ) (صحيح ابن حبان‘ ح: 913‘914) ’’جس طرح وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے مقرر کردہ فرائض کی بجا آوری کی جائے۔‘‘ کیمیائی تجزیہ وغیرہ کے لیے ورید سے خون لینے کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر خون زیادہ مقدار میں لینا مقصود ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ دن کے بجائے رات کے وقت لے لیا جائے اور اگر زیادہ مقدار میں خون دن کے وقت لیا گیا ہو تو پھر زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ اس روزے کی قضا دے لی جائے کیونکہ یہ عمل سینگی سے مشابہت رکھتا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ انتہائی بڑھاپے میں تکلیف (شرعی ذمہ داری) ساقط ہو جاتی ہے سوال: میری دادی بہت معمر تھی۔ اس نے عدم استطاعت کی وجہ سے گزشتہ دس سالوں سے روزے نہیں رکھے تھے اور اس سال ان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے وارثوں نے جہالت کی وجہ سے ان کے روزوں کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا۔ یاد رہے کہ انہیں معاشرتی کفالت کے ادارے کی طرف سے امداد بھی ملتی تھی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ان وارثوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ گزشتہ تمام سالوں کے روزوں کا کفارہ ادا کرین اور کیا وہ کفارہ ادا نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار ہوں گے؟ راہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا جواب: اگر وہ مدت مذکورہ میں سلیم العقل تھیں اور کفارہ ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتی تھیں تو ان کے ترکہ میں سے ان دنوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا جن میں انہوں نے روزے نہیں رکھے اور کفارہ بھی ادا نہیں کیا۔ کفارہ یہ ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو نصف صاع کے حساب سے وہ کھانا دے دیا جائے جو آپ کے علاقے میں کھایا جاتا ہے۔ اگر بے انتہا بڑھاپے کی وجہ سے ان کی عقل جاتی رہتی تھی یا وہ اپنی زندگی میں فقر کے باعث کفارہ ادا نہیں کر سکتی تھیں کہ انہیں معاشرتی کفالت کے ادارے سے صرف بقدر ضرورت ہی ملتا تھا اور کفارہ ادا کرنے کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچتا تھا تو پھر ان پر یا ان کے وارثوں پر کچھ لازم نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ) (التغابن 64/16) ’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘
Flag Counter