Maktaba Wahhabi

208 - 531
جواب: جو شخص کسی شرعی عذر مثلا بیماری کی وجہ سے روزوں کی قضا مؤخر کر دے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَن كَانَ مَرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌) (البقرة 2/185) ’’اور جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی کو پورا کرے۔‘‘ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ) (التغابن 64/16) ’’سو جہاں تک ہو سکے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘ ہاں البتہ جو شخص بغیر عذر کے اس قدر تاخیر کرے تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ اسے چاہیئے کہ توبہ کرے، ان روزوں کی قضا دے اور ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا بھی دے۔ کھانے کی مقدار چاول وغیرہ یا جو اس علاقے کی خوراک ہو وہ نصف صاع فی دن کے حساب سے دی جائے نصف صاع کا وزن تقریبا ڈیڑھ کلو ہے۔ یہ کھانا بعض فقراء یا کسی ایک فقیر کو روزوں سے پہلے یا بعد میں دے دیا جائے۔ واللّٰه ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ قضا اگلے رمضان تک مؤخر کر دی سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے اور پھر قضا نہ دے حتیٰ کہ اگلا رمضان آ جائے؟ جواب: اگر چھوڑے ہوئے روزے کی قضا میں کسی عذر مثلا بیماری وغیرہ کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو اس پر بوقت قدرت صرف قضا لازم ہو گی اور اگر اس نے کسی عذر کے بغیر قضا میں تاخیر کی تو اس نے بہت برا کیا ہے۔ اس صورت میں قضا بھی لازم ہو گی اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا ہو گا۔ سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کے ذمہ 1392ھ کے رمضان کا ایک روزہ تھا اور اس نے قضا نہ دی حتیٰ کہ 93ھ کا رمضان آ گیا؟ جواب: جب کوئی انسان رمضان کے ایک یا ایک سے زیادہ روزوں کی قضا میں اس قدر سستی کرے کہ اگلا رمضان آ جائے تو پھر وہ قضا بھی دے اور نصف صاع کے حساب سے ہر دن کے عوض مسکین کو گندم وغیرہ بھی دے یا کوئی اور ایسی جنس جو اس علاقے میں کھانے کا معمول ہو بشرطیکہ اس نے قضا میں کسی عذر کے بغیر تاخیر کی ہو اور اگر اس نے کسی عذر کی وجہ سے قضا میں تاخیر کی ہو مثلا بیماری یا اس قدر کمزوری ہو کہ وہ فوت شدہ روزوں کی قضا دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر اس پر فدیہ لازم ہو گا۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ عذر کے بغیر قضا میں تاخیر سوال: پانچ سال پہلے میں رمضان میں شدید بیمار ہو گیا جس کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکا اور ان روزوں کی آج تک
Flag Counter