Maktaba Wahhabi

261 - 531
ہے کہ فریضۂ حج ادا کرکے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکے، اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے حج کر کے اسے نفع پہنچا سکے، مشاعر حج میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو سکے، طواف، مسجد حرام کی نمازوں اور علمی محفلوں میں شرکت کر کے اجروثواب حاصل کر سکے تو وہ یقینا بہت زیادہ خیروبرکت حاصل کر کے حج کا بھی اسی قدر ثواب حاصل کر ے گا جس قدر اسے ثواب ملے گا جس کی طرف سے اس نے حج کیا ہو گا۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ تندرست آدمی کی طرف سے حج بدل سوال: ایک صحیح سالم (تندرست) آدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو حج پر بھیج دے تو کیا اس کا حج صحیح ہو گا؟ جواب: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص خود حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ فرض حج کے لیے کسی اور کو اپنی طرف سے نائب بنا کر بھیجے۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ’’المغنی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص خود حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی کو نائب بنا کر بھیج دے۔ اسی طرح صحیح قول کے مطابق نفل حج کی نیابت بھی جائز نہیں ہے کیونکہ حج عبادت ہے اور عبادت میں اصل یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں اور ہمارے علم کے مطابق شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ تندرست آدمی بھی اپنی طرف سے کسی کو حج پر بھیج سکتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697) ’’ جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (بات) مردود ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں: (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْس عَلَيْهِ أمْرُنا؛ فَهْوَ رَدٌّ) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718) ’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘ اسی طرح سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا گیا: ’’جو شخص پہلے فریضۂ حج ادا کر چکا ہو تو کیا وہ نفل حج کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کر سکتا ہے، جبکہ وہ خود بھی حج کر سکتا ہو؟‘‘ تو سماحۃ الشیخ نے اس سوال کا یہ جواب دیا: اس مسئلہ میں اگرچہ اہل علم میں اختلاف ہے لیکن زیادہ نمایاں بات یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کیونکہ حج بدل کی اجازت کا تعلق میت اور اس بے حد بوڑھے انسان سے ہے جو خود حج کرنے سے عاجز و قاصر ہو اور اس دائمی مریض کا بھی یہی حکم ہے جس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو اور عبادات کے سلسلہ میں اصل عدم نیابت ہے، لہذا واجب ہے کہ اس اصول کو باقی رہنے دیا جائے۔ واللّٰه ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter