Maktaba Wahhabi

266 - 531
داروں سے یہ سنا ہے کہ میرے والد نے حج کیا تھا۔ کیا کسی کو والدہ کی طرف سے حج کے لیے اجرت پر بھیجا جائز ہے یا ضروری ہے کہ میں خود ان کی طرف سے حج کروں؟ کیا میرے لیے اپنے والد کی طرف سے حج کرنا بھی لازم ہے جبکہ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے حج کیا تھا؟ امید ہے رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں گے۔ جواب: اگر آپ اپنے والدین کی طرف سے خود حج کریں اور شرعی طریقے سے حج کی تکمیل کے لیے کوشش کریں تو یہ افضل ہے اور اگر آپ دین دار اور امانت دار لوگوں میں سے کسی کو اجرت پر بھیج دیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن افضل یہ ہے کہ آپ خود اپنے والدین کی طرف سے حج اور عمرہ کریں اور اگر کسی کو نائب بنا کر بھیجیں تو آپ اسے حکم دیں کہ وہ ان کی طرف سے حج اور عمرہ کرے۔ آپ کا یہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک ہو گا۔ تقبل اللّٰه منا ومنك ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ فوت شدہ والدین کی طرف سے حج کرنا سوال: کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ کیونکہ فقر کی وجہ سے وہ فریضۂ حج ادا نہیں کر سکے، لہذا میں ان کی طرف سے حج کرنا چاہتا ہوں تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب: آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ آپ اپنے والدین کی طرف سے حج کریں بشرطیکہ آپ نے خود پہلے حج کیا ہو۔ اسی طرح ان کے حج کے لیے کسی ایسے شخص کو نائب بنا کر بھیجنا بھی درست ہے جو خود پہلے اپنا حج کر چکا ہو۔ سنن ابی داد میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا: (لَبَّيْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ) ’’میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: (مَنْ شُبْرُمَةُ؟ قَالَ: أَخٌ لِي: أَوْ قَرِيبٌ لِي) ’’ شبرمہ کون ہے؟ ‘‘ اس نے کہا کہ وہ میرا بھائی یا کوئی رشتہ دار ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: (حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِك ؟ قَالَ: لَا) ’’کیا تم نے خود حج کر لیا ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: (حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ) (سنن ابي داود ‘ المناسك‘ باب الرجل يحج عن غيره‘ح: 1811 والسنن الكبري للبيهقي: 4/336) ’’پہلے خود حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو۔‘‘ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس باب (مسئلہ مذکورہ) میں اس سے زیادہ اور کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
Flag Counter