Maktaba Wahhabi

268 - 531
(فَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ) (التغابن 64/16) ’’سو جہاں تک ہو سکے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ والسلام ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ عمرہ دو کی طرف سے نہیں ہو سکتا سوال: الحمدللہ ہم ہر سال عمرہ ادا کرنے کے لیے رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو ایک سال میں اپنے باپ کی طرف سے اور دوسرے سال اپنی والدہ کی طرف سے عمرہ کی نیت کر لیتا ہوں لیکن آخری عمرہ جو میں نے کیا ہے تو اس میں دونوں کی طرف سے نیت کی تھی اور جب میں نے اس عمرے کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ عمرہ آپ ہی کے لیے ہو گا، آپ کے ماں باپ کے لیے نہیں ہو گا تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ جواب: ہاں یہ بات صحیح ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ حج اور عمرہ دو کی طرف سے نہیں بلکہ صرف ایک ہی شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ یعنی اپنے لیے یا صرف اپنے باپ یا ماں کے لیے اور یہ ممکن نہیں کہ آدمی دو کی طرف سے لبیک کہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ دو کی طرف سے نہیں بلکہ خود اسی کی طرف سے ہو گا۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ عمرہ، حج، صدقہ، نماز، تلاوت قرآن اور دیگر تمام اعمال صالحہ اپنی طرف سے ادا کرے کیونکہ ہر انسان ان اعمال صالحہ کا خود محتاج ہے۔ ایک دن آنے والا ہے کہ انسان ایک ایک نیکی کی تمنا کرے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی یہ رہنمائی نہیں فرمائی کہ لوگ اپنے اعمال صالحہ کو اپنے باپ، ماں ، یا کسی زندہ یا مردہ انسان کی طرف منسوب کر دیں، ہاں البتہ آپ نے یہ ضرور رہنمائی فرمائی ہے کہ فوت شدگان کے لیے دعا کی جائے، چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: (إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ بَعْدَهُ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631) ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے (1)صدقہ جاریہ (2) علم جس سے نفع اٹھایا جا رہا ہوں اور (3) نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ پر غور فرمائیے کہ ’’نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ نیک بچہ جو اس کے لیے قرآن پڑھتا ہو یا اس کے لیے دو رکعتیں پڑھتا ہو یا اس کی طرف سے حج اور عمرہ کرتا ہو یا اس کی طرف سے روزہ رکھتا ہو بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ’’نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘حالانکہ سیاق میں عمل صالح کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کے لیے کوئی اور عمل صالح کرنے کی بجائے دعا کرے لیکن اگر کوئی شخص عمل صالح کر کے اسے اپنے والدین یا کسی ایک کی طرف منسوب کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن حج اور عمرہ میں بیک وقت دونوں کی طرف سے لبیک نہ کہے۔
Flag Counter