Maktaba Wahhabi

280 - 531
کے بعد پھر اسی سال حج کا احرام باندھ لیا جائے۔ اور اگر کوئی شخص حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لے تو اسے حج قران کہتے ہیں۔ حج تمتع تو اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے جو حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھے کیونکہ جب حج کے مہینے شروع ہو جائیں تو پھر عمرہ کے بجائے احرام حج ہی کے لیے مخصوص ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے تخفیف کر دی اور اس بات کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اسے پسند بھی فرمایا کہ حاجی پہلے عمرے کا احرام باندھیں اور حج تک فائدہ اٹھا لیں یعنی وہ کام کر سکیں جو احرام کی وجہ سے حرام ہو گئے تھے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ جس شخص نے شوال میں عمرہ کیا، گھر لوٹ آیا۔۔۔ سوال: میں نے ماہ شوال کے آخر میں عمرہ ادا کیا اور پھر اس نیت سے گھر واپس لوٹ آیا کہ حج مفرد کروں گا۔ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے۔ کیا اس طرح میرا شمار حج تمتع کرنے والوں میں ہو گا اور مجھ پر ہدی لازم ہو گی یا نہیں؟ جواب: جب کوئی انسان شوال یا ذوالقعدہ میں عمرہ ادا کر کے اپنے گھر واپس لوٹ جائے اور پھر حج مفرد کرے تو جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تمتع نہیں ہے اور نہ اس پر ہدی لازم ہے کیونکہ یہ تو اپنے اہل خانہ کے پاس واپس لوٹ گیا تھا اور اب اس نے حج مفرد کیا ہے۔ حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے، جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی انسان متمتع ہو گا اور اس پر ہدی واجب ہو گی کیونکہ اس نے ایک ہی سال کے حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ کو جمع کیا ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے گھر واپس لوٹ آئے اور بعض کے بقول مسافت قصر کے بقدر سفر کر لے اور پھر حج مفرد کرے تو وہ تمتع نہیں ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول راجح ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ جب وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے تو وہ متمتع نہیں ہے ہاں البتہ جو شخص حج کے لیے آئے اور عمرہ ادا کر کے جدہ یا طائف میں رہے اور پھر حج کا احرام باندھ لے تو یہ شخص بلاشبہ متمتع ہی ہو گا۔ طائف، جدہ یا مدینہ جانے سے اس کا تمتع ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کے لیے آیا ہے اور اس نے جدہ یا طائف کی طرف سفر ضرورت کی وجہ سے کیا ہے یا مدینہ کا سفر زیارت کی وجہ سے کیا ہے تو ظاہر اور راجح بات یہ ہے کہ یہ سفر اس کے تمتع کے خلاف نہیں ہے۔ لہذا اسے حج تمتع کی ہدی کرنا ہو گی۔ نیز اسے حج کے لیے بھی اسی طرح سعی کرنا ہو گی جس طرح اس نے عمرہ کے لیے سعی کی تھی۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ راجح بات یہ ہے کہ اس پر ہدی تمتع لازم ہے سوال: میں 1403ھ میں ریاض میں مقیم تھا۔ ماہ شوال میں جدہ چلا گیا اور وہاں سے میں عمرہ ادا کرنے کے لیےچلا گیا اور عمرہ کر کے پھر واپس لوٹ آیا اور اس سال کے موسم حج تک وہاں ہی رہا، پھر حج کے لیے چلا گیا اور پھر حج اور عمرہ کے بعد ریاض واپس لوٹ آیا۔ اب اس سال مجھے ایک بھائی نے بتایا کہ میرا یہ حج اور عمرہ قران تھا، لہذا میرے لیے جانور ذبح کرنا ضروری ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے، ہمیں فتویٰ عطا فرمائیے۔ جزاکم اللّٰه خیرا جواب : بہت سے اہل علم کے بقول حج تمتع کرنے والا جب جدہ یا مدینہ یا طائف کے درمیان سفر کرے، پھر جدہ سے حج کا
Flag Counter