Maktaba Wahhabi

285 - 531
کیا قران اور افرادمنسوخ ہیں؟ سوال: بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حج قران اور افراد منسوخ ہو چکے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تمتع کا حکم دیا تھا۔ تو جناب کی اس دعوے کے بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب: یہ ایک بالکل باطل قول ہے جو ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ حج کی تین قسمیں ہیں (1) افراد (2) قران (3) تمتع۔ جو شخص حج افراد کی نیت کرتا ہے تو اس کا احرام صحیح ہے، حج بھی صحیح ہے اور اس پر کوئی فدیہ بھی نہیں لیکن اگر وہ اسے فسخ کر کے عمرہ کے لیے خاص کر دے تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ افضل ضرور ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو حکم دیا تھا جنہوں نے حج افراد یا قران کااحرام باندھا تھا اور ان کے ساتھ قربانیوں کے جانور بھی نہ تھے کہ وہ اپنے اس احرام کو عمرہ کے لیے خاص کر دیں اور طواف و سعی کرنے اور بال کتروانے کے بعد حلال ہو جائیں،[1] چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسی طرح کیا تھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ حج افراد منسوخ ہو گیا ہے بلکہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے افضل و اکمل صورت کی طرف رہنمائی تھی۔ واللہ ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ جس نے نیت تمتع کی کی اور تلبیہ مفرد کا کہا سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے حج تمتع کی نیت کی لیکن میقات کے بعد اس نے اپنی رائے تبدیل کر کے مفرد کے لیے لبیک کہنا شروع کر دیا تو کیا اس پر ہدی (قربانی) لازم ہو گی؟ جواب: اس کی صورتیں مختلف ہیں اگر اس نے میقات پر پہنچنے سے پہلے تمتع کی نیت کی اور میقات پر پہنچنے کے بعد نیت بدل کر صرف حج کا احرام باندھ لیا تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں اور کوئی فدیہ نہیں لیکن اگر اس نے میقات سے یا میقات سے پہلے عمرہ و حج کے لیے لبیک کہا اور پھر یہ ارادہ کر لیا کہ اس احرام کو حج کے لیے خاص کر دے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس احرام کو وہ صرف عمرہ کے لیے تو خاص کر سکتا ہے لیکن صرف حج کے لیے نہیں۔ قران کو فسخ کر کے صرف حج کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا، ہاں البتہ اسے فسخ کر کے صرف عمرہ کے لیے خاص کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں مومن کے لیے زیادہ آسانی بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسی کا حکم بھی دیا تھا[2] ۔تو گویا معلوم یہ ہوا کہ جب میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا ہو تو پھر اسے صرف حج کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا ہاں، البتہ عمرہ کے لیے اسے ضرور خاص کیا جا سکتا ہے، بلکہ افضل یہی ہے کہ اسے عمرہ ہی کے لیے خاص کر دیا جائے اور طواف و سعی اور حجامت کے بعد حلال ہو جائے اور پھر بعد میں وقت پر حج کا احرام باندھ لیا جائے اور اس طرح آدمی متمتع ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter