Maktaba Wahhabi

293 - 531
وصفتها ووقتها‘ ح: 1184) یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ تلبیہ جو صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث سے ثابت ہے۔[1] ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ کیا احرام کے لیے دو رکعتیں شرط ہیں؟ سوال: کیا احرام کے لیے دو رکعتیں شرط ہیں یا نہیں؟ جواب: یہ دو رکعتیں احرام کے لیے شرط نہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی علماء میں اختلاف ہے۔ جمہور نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ وضو کرے، دو رکعتیں پڑھے اور پھر تلبیہ پڑھے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا تھا۔[2] یعنی آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پہلے نماز ظہر ادا فرمائی اور پھر احرام باندھا اور فرمایا: (أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ ) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم العقيق واد مبارك‘ ح: 1534) ’’ آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبریل علیہ السلام) آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ عمرہ حج میں (داخل) ہے ۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو رکعت نماز پڑھنا مشروع ہے۔جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث اس مسئلہ میں نص نہیں کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ مذکورہ حدیث میں نماز سے مراد فرض نماز ہو، لہذا یہ حدیث احرام کی دو رکعتوں کے بارے میں نص نہیں ہے۔ فرض نماز کے بعد احرام باندھنا بھی اس بات کی دلیل نہیں کہ احرام کی دو مخصوص رکعتیں مشروع ہیں بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر آسانی سے ممکن ہو تو حج یا عمرہ کا نماز کے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ میقات سے پہلے احرام باندھنا سوال: میقات سے پہلے احرام باندھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا صحیح ہے؟ جواب: مکانی میقات سے پہلے احرام باندھنے میں کوئی حرج نہیں مثلا یہ کہ صفائی حاصل کر کے طائف سے احرام باندھ لیں، نیت کریں اور تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں، اسی طرح اہل مدینہ کے لیے اپنے گھروں سے احرام باندھنا بھی جائز ہے۔ اہل مصر کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ جب سفر کا ارادہ کریں تو اپنے گھروں سے نکلتے وقت یا جدہ کی طرف سفر کے لیے ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت احرام باندھ لیں لیکن یہ خلاف اولیٰ ہے۔
Flag Counter