Maktaba Wahhabi

321 - 531
حج میں وکالت رمی جمار میں وکالت سوال: رمہ جمار میں کب وکالت جائز ہے؟ کیا کچھ ایسے ایام بھی ہیں، جن میں وکالت جائز نہیں؟ جواب: تمام جمرات میں وکالت جائز ہے اس مریض کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہو، اس حاملہ کے لیے جسے اپنے بارے میں خطرہ ہو، اس مرضعہ کے لیے جس کے بچوں کی حفاطت کے لیے کوئی نہ ہو، اور اس بوڑھے ،مرد و عورت کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہوں، اسی طرح چھوٹے بچے اور بچی کی طرف سے ولی رمی کر سکتا ہے۔ وکیل اپنی طرف سے اور اپنے مؤکل کی طرف سے ہر جمرہ کے پاس ایک ہی وقت میں رمی کر سکتا ہے، وہ پہلے اپنی طرف سے رمی کرےاور پھر اپنے موکل کی طرف سے، الا یہ کہ وکیل کا نفل حج ہو تو پھر اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ اپنی طرف سے پہلے رمی کرے، لیکن یاد رہے کہ رمی میں وکالت صرف حاجی ہی کر سکتا ہے، جو شخص حج نہ کر رہا ہو تو وہ رمی میں دوسرے کی وکالت بھی نہیں کر سکتا اور نہ اس کا کسی دوسرے کی طرف سے رمی کرنا جائز ہی ہو گا۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ طاقت کے باوجود رمی میں نیابت سوال: کیا طاقتور شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ رمی جمار کے لیے ایام تشریق کے دوسرے دن کسی اور شخص کو اپنا وکیل مقرر کر دے کیونکہ گھریلو حالات کی وجہ سے میرا آج ریاض واپس جانا ضروری ہے یا اس کی وجہ سے مجھ پر دم لازم ہو گا؟ جواب: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اپنا نائب بنائے اور رمی کی تکمیل سے قبل خود سفر کرے بلکہ واجب یہ ہے کہ اگر اسے قدرت ہے تو خود رمی کرے اور اگر خود عاجز ہو تو انتظار کرے، کسی کو اپنا نائب مقرر کرے اور اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا وکیل رمی جمار سے فارغ نہ ہو جائے، پھر یہ موکل طواف وداع کرے اور پھر اس کے بعد وہ سفر کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود صحیح سالم ہو تو اس کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ خود رمی کرے کیونکہ اس نے جب حج کا احرام باندھا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی تکمیل بھی کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَأَتِمُّوا۟ ٱلْحَجَّ وَٱلْعُمْرَ‌ةَ لِلّٰهِ) (البقره 2/196) ’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو۔‘‘ اسی طرح عمرہ کے لیے بھی یہی حکم ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہے کہ جب ایک دفعہ شروع کر دیا جائے تو پھر واجب ہے کہ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ صحیح قول کے مطابق اس شخص کے لیے بعض اعمال حج میں وکالت جائز
Flag Counter