Maktaba Wahhabi

322 - 531
نہیں جو انہیں سر انجام دینے پر قادر ہو اور اگر کوئی شخص رمی سے قبل سفر کر جائے تو اس کے لیے جانور ذبح کر کے فقراء مکہ کو کھلانا واجب ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ مریض، عورت اور بچے کی طرف سے رمی میں وکالت سوال: مریض، عورت اور بچے کی طرف سے رمی میں وکالت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: مریض اور ایسی عورت جو خود رمی کرنے سے عاجز ہو مثلا حاملہ، بہت بھاری بھر کم اور کمزور عورت کے لیے وکالت میں کوئی حرج نہیں، ہاں البتہ طاقت ور اور صحت مند عورت کو خود رمی کرنی چاہیے۔ جو شخص دن کے وقت زوال کے بعد رمی کرنے سے عاجز ہو وہ رات کو رمی کر لے، جو عید کے دن رمی نہ کر سکے وہ گیارہ کی رات کو رمی کرے، جو گیارہ تاریخ کو رمی نہ کر سکے وہ بارہ کی رات کو کر لے اور جو شخص بارہ تاریخ کو بھی نہ کر سکے یا زوال کے بعد رمی نہ کر سکے تو وہ تیرہ تاریخ کی رات کو رمی کر لے اور پھر اس کے بعد طلوع فجر کے ساتھ رمی کا وقت ختم ہو جائے گا۔ یاد رہے ایام تشریق میں دن کو زوال کے بعد ہی رمی کی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ ہجوم وغیرہ کی وجہ سے رمی میں وکالت سوال: کیا اس عورت کے لیے جو فرض حج ادا کر رہی ہو ہجوم وغیرہ کی وجہ سے رمی جمرات میں وکالت جائز ہے یا اسے خود ہی رمی کرنا پڑے گی؟ جواب: رمی جمرات کے پاس رش کی وجہ سے جائز ہے کہ عورت کسی کو اپنا وکیل مقرر کر دے خواہ اس کا حج فرض ہی کیوں نہ ہو۔ عورت مرض، کمزوری، حمل کی حفاظت جب کہ وہ حاملہ ہو، نیز عزت حرمت کی حفاظت کی وجہ سے کسی کو اپنا وکیل مقرر کر سکتی ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ سوال: ایک عورت نے رمی جمار کے علاوہ دیگر تمام مناسک حج کو ادا کر دیا اور رمی کے لیے اس نے کسی کو اپنا وکیل مقرر کر دیا کیونکہ اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا اور یہ اس کا فرض حج تھا تو اس بارے میں کیا حکم ہے، فتویٰ دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجروثواب سے نوازے گا؟ جواب: اس سلسلہ میں اس پر کچھ لازم نہیں، وکیل کا رمی کرنا جائز ہے۔ رمی جمار کے وقت رش کی وجہ سے عورتوں کے لیے خصوصاجن کے ہمراہ بچے بھی ہوں، بہت خطرہ ہوتا ہے لہذا ان کے لیے وکالت جائز ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter