Maktaba Wahhabi

325 - 531
جواب: طواف اور سعی میں وکالت صحیح نہیں ہے بلکہ لازم یہ ہے کہ طواف اور سعی کو خود کیا جائے خواہ اس کے لیے چار پائی یا گاڑی وغیرہ کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔ اگر کسی کو شدت مرض کے باعث اس کی بھی طاقت نہ ہو تو وہ بدستور حالت احرام میں رہے اور شفایاب ہونے کے بعد طواف و سعی کرے خواہ کئی ماہ گزر جائیں بشرطیکہ اس کے شفایاب ہونے کی امید ہو، اس کے لیے احرام کو ختم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کے باطل کرنے سے باطل نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص شفایاب ہونے سے مایوس ہو جائے تو وہ محصر (راستے میں روکے ہوئے شخص) کی طرح ہے، اسے چاہیے کہ ایک بکری ذبح کر کے حرم کے مسکینوں کو کھلا دے اور حلال ہو جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ‌ مِنَ ٱلْهَدْىِ) (البقرة 2/196) ’’ اور اگر (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو۔)‘‘ اور اگر بکری کی قیمت موجود نہ ہو تو پھر دس روزے رکھے اور پھر حلال ہو جائے۔ اور اگر کوئی شخص عرفہ سے قبل بیمار ہو جائے اور وقوف عرفہ نہ کر سکے تو اس کا حج فوت ہو گیا، لہذا اسے چاہیے کہ عمرہ کر کے حلال ہو جائے۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ اعمال حج قربانی کے دن کے اعمال اور تقدیم و تاخیر سوال: قربانی کے دن حاجی کے لیے کون سے اعمال افضل ہیں اور کیا ان میں تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے؟ جواب: قربانی کے دن سنت یہ ہے کہ جمرات کی رمی کی جائے۔ جمرہ عقبہ سے جو مکہ کے ساتھ ملا ہوا ہے آغاز کیا جائے۔ اسے سات کنکریاں ماری جائیں، ہر کنکری الگ الگ ماری جائے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھی جائے اور اگر ہدی پاس ہو تو پھر ہدی کو ذبح کیا جائے، پھر حاجی سر کے بال منڈوا یا کٹوا دے لیکن بالوں کو منڈوانا افضل ہے۔ پھر طواف کرے اور اگر سعی لازم ہو تو سعی بھی کرے۔ افضل تو یہی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے رمی کی، پھر قربانی کی، پھر بال منڈوائے اور پھر مکہ مکرمہ جا کر طواف کیا، تو یہ ترتیب افضل ہے، اور ان میں سے اگر کسی عمل کو دوسرے سے مقدم کر دیا تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر رمی سے پہلے قربانی کر دی، یا رمی سے پہلے افاضہ کر لیا، یا رمی سے پہلے بالوں کو منڈوا دیا، یا قربانی سے پہلے بالوں کو منڈوا دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان اعمال میں تقدیم و تاخیر کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے یہی فرمایا: (لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب الذبح قبل الحلق‘ ح: 11721 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب جواز تقديم الذبح علي الرمي...الخ‘ ح: 1306‘1307) ’’اس میں کوئی حرج نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter