Maktaba Wahhabi

352 - 531
کی ذات گرامی پر درود بھیجا جائے۔ یاد رہے تمام عرفہ موقف ہے۔ جب آفتاب غروب ہو جائے تو پھر حاجیوں کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اطمینان و سکون اور وقار کے ساتھ اور کثرت سے تلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائیں اور جب مزدلفہ میں پہنچیں تو مغرب و عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ اس طرح ادا کریں۔ مغرب کی تین اور عشاء کی صرف دو رکعتیں پڑھی جائیں۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ غروب آفتاب سے قبل عرفہ سے روانگی سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو حج میں غروب آفتاب سے قبل ہی اپنے ضروری کاموں کی وجہ سے عرفہ سے روانہ ہو جائے؟ جواب: جو شخص غروب آفتاب سے قبل عرفہ سے روانہ ہو جائے اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر فدیہ واجب ہے الا یہ کہ وہ رات کوواپس آ جائے تو پھر فدیہ ساقط ہو جائے گا۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک جانور ذبح کر کے حرم کے مسکینوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ عرفہ سے باہر وقوف سوال: جب کوئی حاجی حدود عرفہ سے باہر مگر عرفہ کے قریب ہی وقوف کرے،حتی کہ سورج غروب ہوجائے اور پھر وہاں سے روانہ ہوجائے تو اس کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب:جب کوئی حاجی حدود وقوف کے وقت عرفہ میں وقوف نہ کرے تو اس کا حج نہیں ہوتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (الْحَجُّ عَرَفَةَ، فَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ) (سنن النسائي‘ مناسك الحج‘ باب فرض الوقوف بعرفة‘ ح: 3019 والسنن الكبري للبيهقي : 5/173 واللفظ له) ’’حج عرفہ ہے، جو شخص رات کو طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفہ میں آ جائے تو یقینا اس نے حج کو پا لیا۔‘‘ وقوف کا وقت، عرفہ کے دن کے زوال کے بعد سے لے کر قربانی کی رات کی طلوع فجر تک ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ زوال سے ما قبل کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ اکثر کی یہ رائے ہے کہ اگر زوال کے بعد اور رات کو وقوف نہ کرے تو قبل از زوال کاوقوف کفایت نہیں کرے گا۔ جو شخص زوال کے بعد دن کو یا رات کو وقوف کرے تو اس کا یہ وقوف صحیح ہے۔ افضل یہ ہے کہ دن کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع تقدیم کی صورت میں ادا کر کے غروب آفتاب تک وقوف کیا جائے۔ دن کے وقت وقوف کرنے والے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے عرفہ سے واپس لوٹے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر دم لازم ہو گا کیونکہ اس نے ایک واجب کو ترک کر دیا اور وہ یہ کہ دن کو وقوف کرنے والے کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ دن رات کے وقوف کو جمع کرے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter