Maktaba Wahhabi

36 - 531
جائے گی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ صحیح ہو گی۔ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد۔ ۔۔۔ فتویٰ کمیٹی۔۔۔ پرانی مسجدوں کے پتھروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا سوال: ایک انتہائی قدیم ترین مسجد ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے سیلابوں نے بھی اس کی عمارت کو بے حد شکستہ اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی قبر بھی ہو تو کیا ایسی صورت میں کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کے پتھروں کو اپنے گھر منتقل کر کے ذاتی ملکیت بنا لے؟ جواب: جب کوئی مسجد سیلاب یا دیگر اسباب کی وجہ سے خراب ہو جائے تو اہل محلہ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کریں اور اس میں اقامت نماز کا اہتمام کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ بَنَى لِلّٰهِ مَسْجِدًا بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ) (صحيح ابن خزيمة: 2/268‘ ح: 1291 واصله في الصحيحين انظر صحيح البخاري‘ ح:450 وصحيح مسلم‘ ح: 533) ’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: (أَمَرَ رسولُ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بِبِنَاءِ المَساجِدِ في الدُّورِ وأن تُنَظَّفَ و تُطَيَّبَ) (مسند احمد : 6/279 وسنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب اتخاذ المساجد في الدور‘ ح: 455) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔‘‘ اس حدیث میں ’’دور‘‘کے لفظ سے مراد قبائل اور محلے وغیرہ ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کی فضیلت کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ اگر محلہ میں کوئی اور مسجد ہو جس کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو پھر اس مسجد کی اینٹیں اور پتھر کسی دوسرے محلہ یا شہر کی ضرورت مند مسجد کے لیے استعمال کیے جائیں۔ مذکورہ مسجد جس شہر میں ہے اس کے حاکم، قاضی امیر یا سردار قبیلہ پر فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے اور اس کے پتھروں کو دیگر ضرورت والی مساجد میں منتقل کر دے یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کر دے۔ اہل شہر میں سے کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ حاکم کی اجازت کے بغیر اس مسجد کی کسی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے اور اگر اس مسجد میں کوئی قبر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس قبر کو یہاں سے ہٹا دیا جائے اور اس میں موجود ہڈیوں کو۔۔۔ اگر وہ موجود ہوں۔۔۔ شہر کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے کیونکہ شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ مسجدوں میں قبریں ہوں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنائی جائیں کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ اور قبروں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اصحاب قبور کے بارےمیں غلو سے کام لینے کی وجہ سے صدیوں سے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا تھا جو اس جگہ موجود تھیں، جہاں مسجد
Flag Counter