Maktaba Wahhabi

370 - 531
ہو گیا تو سفر نہ کر سکے گا اور اس صورت میں اسے مشقت بھی بہت ہو گی اور ملکی قوانین کی مخالفت بھی لازم آئے گی؟ جواب: یہ تو جائز نہیں کہ وہ زوال سے پہلے رمی کرے، ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ اس حالت میں ضرورت کے پیش نظر اس سے رمی ساقط ہو جائے گی اور اس پر فدیہ لازم ہو گا، جسے وہ خود یا اس کا وکیل منیٰ یا مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کر دے اور یہ طواف وداع کر کے سفر کرے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ایک قول کے مطابق زوال سے قبل بھی رمی کرنا جائز ہے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ زوال سے قبل رمی جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له) ’’مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی فرمائی تھی، اگر کوئی یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال کے بعد رمی کرنا محض آپ کا فعل ہے اور محض فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، تو ہم عرض کریں گے کہ ہاں یہ صحیح ہے کہ یہ مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہیں دیا کہ رمی زوال کے بعد ہو اور نہ زوال سے پہلے رمی کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ صحیح ہے کہ فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ وجوب تو اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کسی فعل کا حکم دیا گیا ہو یا کسی فعل کے ترک سے منع کر دیا گیا ہو، لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کے وجوب پر قرینہ دلالت کناں ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمی کو مؤخر کرتے حتیٰ کہ سورج زوال پذیر ہو جاتا اور اگر رمی زوال آفتاب سے قبل جائز ہوتی تو آپ ضرور زوال سے قبل رمی فرماتے کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے زیادہ سہولت اور آسانی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ کو جب دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان ترین کو منتخب فرما لیتے بشرطیکہ وہ کام گناہ کا نہ ہوتا اور اگر آپ نے یہاں آسان کام کو منتخب نہیں فرمایا جو کہ یقینا قبل از زوال رمی ہے تو معلوم ہوا کہ قبل از زوال رمی کرنا گناہ ہے۔ زوال کے بعد رمی کرنےکے وجوب پر دلالت کرنے والا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب کے فورا بعد اور نماز ظہر سے قبل رمی شروع فرما دیا کرتے تھے گویا آپ زوال کا شدت سے انتظار فرمایا کرتے تاکہ جلد رمی کر سکیں اور اس کے لیے نماز ظہر کو بھی مؤخر فرما دیتے حالانکہ نماز کو اول وقت ادا کرنا افضل ہے لیکن یہ سارا اہتمام صرف اس لیے ہوتا کہ رمی زوال کے بعد کر سکیں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ زوال سے پہلے رمی جائز نہیں سوال: میں نے حج کے آخری دن جمرات کو اذان ظہر سے پندرہ منٹ پہلے رمی کر دی تھی، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ زوال کا وقت ہے؟ اور اگر زوال کا وقت شروع نہیں ہوا تو کیا اس صورت میں مجھ پر کوئی فدیہ لازم ہے؟ جواب: آپ پر دم لازم ہے جسے مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کر دیا جائے کیونکہ ایام تشریق میں رمی جمار، زوال آفتاب کے بعد ہے، زوال سے پہلے جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں زوال کے بعد رمی کی ہے اور آپ نے فرمایا:
Flag Counter