Maktaba Wahhabi

371 - 531
(خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له) ’’مجھ سے اپنے مناسک حج کو سیکھ لو۔‘‘ لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس مسئلہ میں بھی آپ کی اتباع کریں۔ دم کے ساتھ ساتھ آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور توبہ کریں کیونکہ آپ نے حکم شریعت کی مخالفت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں، تمہیں اور تمام مسلمانوں کو معاف فرمائے ! ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ جمرہ عقبہ کو رات کو رمی کرنا سوال: کیا یہ جائز ہے کہ عید کی رات مزدلفہ سے منیٰ آنے کے بعد رات کے وقت جمرہ عقبہ کو رمی کر دی جائے اور صحیح حدیث میں جو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلمان بنی عبدالمطلب سے فرمایا تھا: (لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ) (جامع الترمذي‘ الحج‘ باب ما جاء في تقديم الضعفة من جمع بليل‘ ح: 893) ’’ سورج طلوع ہونے تک جمرہ کو رمی نہ کرو۔‘‘ تو اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟ جواب: طاقتور لوگوں کے لیے افضل یہ ہے کہ عید کے دن جمرہ عقبہ کو طلوع آفتاب کے بعد رمی کریں تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور مذکورہ حدیث کے مطابق عمل ہو سکے، جہاں تک معذوروں اور کمزوروں کا تعلق ہے تو ان کے لیے رات کے نصف اخیر میں بھی رمی کرنا جائز ہے جیسا کہ اس مسئلہ سے متعلق احادیث سے یہ ثابت ہے مثلا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر والی رات حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھیجا تو انہوں نے فجر سے پہلے جمرہ کو رمی کی تھی۔[1] اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ مولیٰ اسماء سے روایت کیا ہے کہ وہ مزدلفہ کی رات مزدلفہ میں آئیں اور کچھ دیر نماز پڑھتی رہیں اور پھر کہنے لگیں اے میرے بیٹے! کیا چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو وہ کچھ دیر نماز پڑھتی رہیں، پھر کہا، کیا چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو انہوں نے کہا کہ پھر اب کوچ کرو، چنانچہ ہم نے کوچ کیا حتیٰ کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کیا، پھر واپس لوٹ آئیں، اور صبح کی نماز اپنی رہائش پر ادا کی۔ میں نے کہا کہ ابھی تک تو بہت اندھیرا ہے تو انہوں نے کہا :اے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو اس کی اجازت دے دی تھی۔[2] باقی رہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جس میں طلوع آفتاب کے بعد رمی کا ذکر ہے تو بعض اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس کی سند منقطع ہے۔ اور اگر اسے صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو یہ استحباب اور افضیلت پر محمول ہو گا تاکہ اس مسئلہ سے متعلق تمام احادیث میں تطبیق دی جا سکے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا ہے۔ واللہ اعلم
Flag Counter