Maktaba Wahhabi

374 - 531
جو نقص رہ گیا ہو اسے مکمل کر لے اور اس پر بعد والی رمی کا اعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ جہالت یا نسیان کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اور اس آدمی نے جب دوسرے جمرہ کو رمی کی تو اس کے خیال میں پہلے جمرہ کے حوالہ سے اس پر کچھ لازم نہ تھا کیونکہ اس کی حالت جہالت اور نسیان کے درمیان تھی، لہذا ہم اس سے یہ کہیں گے کہ جتنی کنکریاں کم رہ گئی ہیں، انہیں پوراکر لو اور اس کے بعد کی رمی آپ پر واجب نہیں ہے۔ جواب ختم کرنے سے پہلے میں اس طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ رمی کرنے کی جگہ وہ ہے جہاں کنکریاں جمع ہوتی ہیں نہ کہ وہ ستون جسے اس جگہ کی نشاندہی کے لیے ستوار کیا گیا ہے، لہذا جو شخص حوض میں کنکری پھینک دے اور اس کی کنکری ستون کو نہ لگے تو اس کی رمی صحیح ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ تمام جمروں کو ایک ہی دن میں رمی کرنا سوال: کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے تمام جمروں کو ایک ہی دن میں رمی کر دے، خواہ وہ ایام تشریق میں سے پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا اور منیٰ میں دو یا تین دن بسر کرے اور رمی نہ کرے تو کیا اس طرح ایک ہی دن رمی کرنا صحیح ہے یا یہ ضروری ہے کہ رمی میں ایام کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے، امیدہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟ جواب: رمی جمار حج کے واجبات میں سے ہے اور غیر متعجل کے لیے عید کے دن اور ایام تشریق میں رمی کرنا واجب ہے۔ اور متعجل کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دو دنوں میں رمی کرے اور ہر روز زوال کے بعد رمی کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور حج کے سلسلہ میں آپ کا مشہور ارشاد گرامی ہے: (خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له) ’’حج کے احکام و اعمال مجھ سے سیکھو۔‘‘ لہذا قبل از وقت رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ شدید ضرورت مثلا بہت زیادہ بھیڑ وغیرہ کی صورت میں اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک اسے مؤخر کرنا جائز ہے۔ ان اہل علم نے یہ بات ان چرواہوں وغیرہ پر قیاس کرتے ہوئے فرمائی ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت عطا فرمائی تھی کہ وہ دو دنوں کی رمی دوسرے دن یعنی بارہ تاریخ کو کر لیں[1] اور ترتیب کے لیے نیت کر لیں۔ رمی کے لیے پہلا دن عید کا ہے اور پھر ایام تشریق کا پہلا دوسرا اور پھر تیسرا دن ہے، بشرطیکہ عجلت کا مسئلہ درپیش نہ ہو اور پھر طواف وداع رمی کے بعد ہوتا ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter