Maktaba Wahhabi

391 - 531
وادی محرم سے احرام باندھتے یا میقات پر پہنچنے کے وقت طیارہ کے اندر ہی احرام باندھ لیتے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟ جواب: اگر آپ نے ریاض میں عمرہ کی نیت کی تھی تو پھر یہ لازم تھا کہ میقات سے یا ہوائی جہاز جب اس کے برابر آتا تو احرام باندھتے اس صورت میں اگر آپ نے میقات سے احرام نہیں باندھا تو اس کی تلافی کے لیے دم لازم ہے اور اگر سفر شروع کرتے وقت آپ کا عمرے کا ارادہ نہیں تھا اور یہ ارادہ آپ نے جدہ پہنچ کر کیا تو اس صورت میں آپ کے لیے وہی جگہ میقات ہے جہاں آپ نے یہ ارادہ کیا اور جیسا کہ آپ نے ذکر کیا وہ جگہ جدہ ہے جہاں آپ نے ارادہ کیا تھا لہذا آپ پر دم لازم نہیں ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ مکہ مکرمہ میں مقیم جب عمرہ کا ارادہ کرے سوال: اہل مکہ میں سے یا مکہ میں آنے والے لوگوں میں سے جب کوئی عمرے کا ارادہ کرے تو وہ کہاں سے احرام باندھے؟ کیا مکہ ہی سے یا حل سے یا اپنے ملک کے میقات سے؟ امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ میں مستفید فرمائیں گے۔ جواب: مکہ میں مقیم لوگوں میں سے جب کوئی عمرہ کا ارادہ کرے، خواہ وہ مکہ مکرمہ کے باشندوں میں سے ہو یا باہر کسی دوسرے ملک سے آیا ہو، تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ حل سے احرام باندھے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مقیم تھیں اور انہوں نے عمرہ کا ارادہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ حرم سے باہر جا کر احرام باندھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ آپ کے بھائی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا تھا جن کے ساتھ جا کر آپ نے مقام تنعیم سے احرام باندھا۔[1] یہ جگہ آج کل مسجد عائشہ کے نام سے معروف ہے۔ بعض اہل علم کا یہ مذہب ہے کہ اہل مکہ کے لیے عمرہ نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رمضان میں مکہ کو فتح کیا تو آپ عمرہ کے لیے مکہ سے باہر نہیں نکلے، لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے۔ حضرت عائشہ سے مروی مذکورہ حدیث کے پیش نظر جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال سے باہر جا کر احرام نہیں باندھا تو یہ عمرہ کی عدم مشروعیت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک چیز کو بہت سے اسباب کی وجہ سے ترک کر دیا کرتے تھے اور بعض صحابہ کو اس کا حکم بھی دے دیا کرتے تھے تاکہ امت کو اس کی مشروعیت کا بھی علم ہو جائے جیسا کہ آپ نے ابوہریرہ[2] اورابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو [3]تو نماز ضحیٰ پڑھنے کی تاکید فرمائی لیکن آپ خود اسے ہمیشہ نہیں پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ نے نفل روزے کے بارے میں فرمایا کہ اس کی افضل صورت حضرت داود علیہ السلام کے روزہ کی ہے [4]اور وہ یہ کہ ایک دن روزہ رکھ لیا جائے اور ایک دن افطار کر دیا جائے لیکن بعض اسباب کے پیش نظر آپ خود اس کی پابندی نہیں فرمایا کرتے تھے اور ان اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ آپ کو امت کے مشقت میں پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی
Flag Counter