Maktaba Wahhabi

395 - 531
لائے اور آپ نے طواف و سعی کر لیا تو آپ نے حکم دیا کہ’’جو شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ بالوں کو کٹوا دے یا منڈوا دے‘‘[1] تو جب آپ نے بالوں کے کٹوانے کا حکم دیا اور اصول یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانا واجب ہے اور اس کی ایک یہ دلیل بھی ہے کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کو کفار مکہ نے مکہ میں جانے سے روک دیا تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اپنے سروں کو منڈا دیں اور جب انہوں نے اس سلسلہ میں سستی کی تو آپ نے ناراضی کا اظہار فرمایا۔[2] اب رہا یہ مسئلہ کہ عمرہ میں بالوں کو منڈانا افضل ہے یا کٹانا، تو افضل یہ ہے کہ منڈا دیا جائے، ہاں البتہ وہ شخص جس کا حج تمتع کا ارادہ ہو اور وہ دیر سے آیا ہو تو اس کے لیے بالوں کو کٹوانا افضل ہے تاکہ حج میں منڈانے کے لیے بال کافی ہوں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ بال کٹانے سے قبل احرام کھول دینا سوال: میں نے گزشتہ سال رمضان المبارک میں عمرہ ادا کیا اور جب ہم اپنی رہائش گاہ پر واپس آئے تو میں نے بال کٹانے سے قبل احرام کھول دیا کیونکہ مجھے اس کا علم نہ تھا اور میرے اہل خانہ کو بھی اس چیز کا علم نہ تھا کہ مجھے یہ مسئلہ معلوم نہیں ہے اور جب انہیں علم ہوا کہ میں نے بال نہیں کٹوائے تو انہوں نے بتایا کہ یہ جائز نہیں تو میں نے فورا بال کٹوا دئیے، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمرہ مقبول ہے یا نہیں؟ جواب: عمرہ میں محرم کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے سر کے بالوں کے منڈوانے یا کٹوانے سے پہلے احرام کھولے، لہذا جو شخص بالوں کے کٹوانے سے پہلے احرام کھول دے، سلے ہوئے کپڑے پہن لے اور سر ڈھانپ لے اور اسے اس مسئلہ کا علم ہو تو اس پر فدیہ لازم ہے اور اگر اسے یہ مسئلہ معلوم نہ ہو یا وہ بھول کر ایسا کر لے تو پھر فدیہ لازم نہیں ہے لیکن جب اسے معلوم ہو یا یاد آ جائے تو اسے چاہیے کہ فورا لباس اتار دے، احرام پہن لے اور بالوں کو منڈانا یا کٹانا شروع کر دے، ان احکام سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے معذور سمجھا جائے گا۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ عمرہ کرنے والے کے لیے طواف وداع کا واجب نہ ہونا سوال: عمرہ ادا کرنے کے بعد اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے جانا چاہے تو کیا اس کے لیے طواف وداع لازم ہے؟ اور کیا یہ طواف نہ کرنے کی صورت میں کوئی فدیہ وغیرہ ہے؟ جواب: عمرہ کرنے والے کے لیے طواف وداع نہیں ہے جب کہ وہ حرم سے باہر مکہ کے مضافات میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے جانا چاہے، اسی طرح حاجی کے لیے بھی یہی حکم ہے لیکن جب وہ اپنے گھر یا کسی اور جگہ جانے کے لیے سفر کا ارادہ کرے تو پھر اس کے لیے طواف وداع مشروع ہے، لیکن واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
Flag Counter