Maktaba Wahhabi

405 - 531
’’جو کوئی (اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو کوئی برائی لائے گا اسے سزا ویسی ہی ملے گی۔‘‘ برائیوں کا گناہ عدد کے اعتبار سے زیادہ نہیں ہوتا خواہ ان کا ارتکاب رمضان میں کیا جائے یا حرم میں۔ ایک برائی کو ہمیشہ ایک ہی قرار دیا جاتا ہے اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و احسان ہے۔ ہاں البتہ جو برائی حرم میں یا رمضان میں یا عشرہ ذی الحجہ میں کی جائے اس کا گناہ یقینا زیادہ ہے یعنی مکہ میں کی جانے والی برائی کا گناہ جدہ اور طائف وغیرہ میں کی جانے والی برائی سے زیادہ ہو گا، اسی طرح رمضان اور عشرہ ذی الحجہ میں کی جانے والی برائی کا گناہ رجب اور شعبان وغیرہ میں کی جانے والی برائی سے زیادہ ہو گا لیکن یہ اضافہ کیفیت کے اعتبار سے ہے عدد کے اعتبار سے نہیں جب کہ نیکیوں کے ثواب میں اضافہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل سے کیفیت اور عدد دونوں اعتبار سے ہوتا ہے۔ حرم میں برائی کے ارتکاب کے شدید ہونے پر یہ ارشاد باری تعالیٰ دلالت کناں ہے: ﴿وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥﴾ (الحج 22/25) ’’اور جو اس میں شرارت سے کج روی (و کفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حرم میں برائی کا ارادہ کرنے پر بھی وعید ہے اور اگر حرم میں الحاد کے ارادہ پر عذاب الیم کی وعید ہے تو جو یہاں الحاد اور سیئات و منکرات کا ارتکاب کرے تو اس کا گناہ یقینا محض ارادہ کرنے والے سے زیادہ ہو گا، لہذا معلوم ہوا کہ حرم میں برائی کا ارتکاب بے حد خطرناک ہے۔ الحاد کا لفظ عام ہے اور یہ ہر باطل کی طرف میلان کو شامل ہے خواہ اس کا تعلق عقیدہ سے ہو یا کسی اور بات سے۔ یہی وجہ ہے کہ (وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ) میں الحاد کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ،یعنی خواہ جس الحاد کا بھی ارادہ کیا جائے اور الحاد کے معنی حق سے روگردانی کے ہیں اور یہ روگردانی عقیدہ میں بھی ہو سکتی ہے، لہذا جو کوئی یہاں کفر اختیار کرے اس کا گناہ اعظم اور اس کا الحاد بہت بڑا ہو گا۔ حق سے اس روگردانی کا تعلق دیگر برائیوں مثلا شراب نوشی، بدکاری اور ماں باپ کی نافرمانی سے بھی ہو سکتا ہے، تو جو شخص ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا کفر کی نسبت کم ہو گی۔ الحاد کی نوعیت اگر انسانوں پر ظلم کی ہے یعنی اگر یہاں کوئی قتل کرتا ہے یا مارتا ہے یا مال چھینتا ہے یا گالی وغیرہ دیتا ہے تو یہ بھی بے شک الحاد اور ظلم ہے اور اس کی سزا بھی بے حد خطرناک ہے لیکن وہ الحاد جو کفر باللہ اور دائرہ اسلام سے خروج کی شکل میں ہے وہ دیگر تمام برائیوں کی نسبت بدترین صورت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ ٱلشِّرْ‌كَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾) (لقمان 31/13) ’’بے شک شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔‘‘واللہ اعلم۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ حرم کے کبوتروں کی کوئی خصوصیت نہیں سوال: ایک حاجی کا کہنا ہے کہ جب مدینہ منورہ کے کسی کبوتر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ مکہ مکرمہ آ جاتا ہے اور
Flag Counter