لیے دعا کی جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بقیع کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے اور صحابہ کرام کو یہ تعلیم فرماتے کہ جب قبروں کی زیارت کریں تو یہ دعا پڑھیں:
(السَّلامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ لاحِقُونَ نَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب ما يقال عند دخول القبور...الخ‘ ح: 975)
’’اے اس بستی کے رہنے والے مومنو! اور مسلمانو! تم پر سلام! بے شک ہم بھی ان شاءاللہ تم سے عنقریب ملنے والے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی زیارت کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
(يَرْحَمُ اللّٰهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ،اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لاهلھا، ح: 974‘975)
’’اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے جانے والوں اور پیچھے آنے والوں پر رحم فرمائے۔ اے اللہ! تو اہل بقیع الغرقد کو معاف فرما دے۔‘‘
مسجد نبوی کی زیارت کرنے والے کے لیے یہ بھی مشروع ہے کہ وہ مسجد قباء کی بھی زیارت کرے اور اس میں دو رکعتیں پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن اس مسجد کی زیارت کرتے اور اس میں دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا ہے:
(مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءَ، فَصَلَّى فِيهِ صَلَاةً كَانَ لَهُ كَأَجْرِ عُمْرَةٍ) (سنن ابن ماجه‘ اقامة الصلوات‘ باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء‘ ح: 1412)
’’جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے اور پھر مسجد قباء میں آ کر نماز پڑھے تو اسے عمرہ جتنا ثواب ملتا ہے۔‘‘
یہ ہیں مدینہ کے وہ مقامات جن کی زیارت کی جاتی ہے، ان کے علاوہ باقی مقامات مثلا مساجد سبعہ، مسجد قبلتین اور دیگر مقامات وغیرہ جن کی زیارت کے بارے میں مناسک حج پر لکھنے والے بعض مؤلفین نے لکھا ہے تو یہ بے اصل اور بے دلیل ہے۔ مرد مومن کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ سنت پر عمل کرے اور بدعت سے بچے۔
۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
روضۂ رسول کی زیارت کے بارے میں احادیث کا حکم
سوال: امید ہے درج ذیل احادیث کی صحت کے بارے میں رہنمائی فرمائیں گے۔
(من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني)
’’جو شخص بیت اللہ کا حج کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے جفا سے کام لیا۔‘‘
(من زارني بعد موتي فكانما زارني في حياتي)
|