Maktaba Wahhabi

424 - 531
جواب: عقیقہ سے مراد وہ جانور ہے جسے بچے کی پیدائش پر ذبح کیا جاتا ہے، یہ سنت مؤکدہ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ واجب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُسَمَّى) (سنن ابي داود‘ الضحايا‘ باب في العقيقة‘ ح: 2837ّ 2838 وجامع الترمذي‘ ح: 1522 وسنن ابن ماجه‘ ح: 3165 وسنن النسائي‘ ح: 4225 ومسند احمد: 5/7 واللفظ له) ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، لہذا عقیقہ ساتویں دن کیا جائے اور ساتویں دن ہی بچے کا نام بھی رکھا جائے۔‘‘ لیکن اس حدیث سے بھی اس کی تاکید ہی معلوم ہوتی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔ سنت یہ ہے کہ بچے کی طرف سے دو بکریاں یا دو بھیڑیں ذبح کی جائیں اور بچی کی طرف سے ایک ذبح کی جائے، بچے کی طرف سے بھی اگر ایک ہی جانور ذبح کیا جائے تو ان شاءاللہ یہ بھی کافی ہو گا۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک ہفتے کے بعد ایک جانور اور دوسرے ہفتے کے بعد دوسرا جانور ذبح کیا جائے لیکن یہ خلاف اولیٰ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ والد پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے جس نے اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ اگر بچے کا دادا یا بھائی یا کوئی اور عقیقہ کر دے تو یہ بھی جائز ہے یا ان میں سے کوئی اگر جانور خریدنے میں تعاون کر دے تو یہ بھی جائز ہے۔ سنت یہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کا ایک ثلث خود کھا لے، ایک ثلث اعزہ و اقارب کو ہدیہ کر دیا جائے اور ایک ثلث مسلمانوں میں صدقہ کر دیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے کہ دعوت عقیقہ پر اعزہ و اقارب کو مدعو کیا جائے یا عقیقہ کے تمام گوشت کو صدقہ کر دیا جائے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ عقیقہ مولود کے لیے ہے میت کے لیے نہیں سوال: میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور میں ان کا عقیقہ کرنا چاہتا ہوں اور جب اس کے بارے میں میں نے ایک امام صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ عقیقہ تو زندہ کی طرف سے ہوتا ہے، مردہ کی طرف سے نہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس کے بارے میں حکم شریعت کیا ہے؟ جواب: عقیقہ کا حکم میت کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تو کسی انسان کے پیدا ہونے کے ساتویں دن کیا جاتا ہے۔ بچے کے باپ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ بچے کی طرف سے دو بکرے اور بچی کی طرف سے ایک بکرا عقیقہ کے طور پر ذبح کرے اور اگر والد کی مالی حالت کمزور ہو تو وہ بچے کی طرف سے بھی ایک بکرا ذبح کر سکتا ہے۔ عقیقہ کا جانور (بچے کی) پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جائے، اسے خود بھی کھایا جائے، صدقہ بھی کیا جائے اور ہدیہ بھی دیا جائے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ دعوت عقیقہ میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو مدعو کیا جائے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اگر ساتویں دن (عقیقہ کرنا) ممکن نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن بھی ممکن نہ ہو تو اکیسویں دن اور اگر اکیسویں دن بھی ممکن نہ ہو تو پھر جب چاہے عقیقہ کر لے۔ میت کی طرف سے عقیقہ نہیں بلکہ مغفرت اور رحمت کی دعا کی جاتی ہے کیونکہ میت کے لیے دعا کرنا مشروع اور از حد مفید ہے ہاں اس کی طرف سے صدقہ بھی کیا جا سکتا ہے یا دو رکعتیں پڑھ کر یا قرآن مجید کی تلاوت کر کے میت کے لیے
Flag Counter