Maktaba Wahhabi

435 - 531
ادھار اور سامان کو قبضہ میں لینے سے پہلے بیع سوال: جب انسان کے پاس کوئی سامان مثلا دانے یا چینی یا تیل یا مویشی ہو جس کی نقد قیمت ایک سو ریال ہو اور وہ اسے ایک محدود مدت کے ادھار پر جو کہ عموما ایک سال ہوتی ہے، ایک سو تیس ریال پر بیچ دے تو کیا یہ جائز ہے جب کہ خریدار بسا اوقات ایک سال یا دو سال گزرنے پر بھی قیمت ادا نہیں کرتا؟ اسی طرح مقروض سٹور یا دوکان سے ایک چیز خریدتا ہے تو کیا وہ اسے گننے اور وصول کرنے کے بعد اسی جگہ بیچ سکتا ہے یا ضروری ہے کہ وہ اسے اپنے قبضے میں لے کر کسی دوسری جگہ منتقل بھی کرے؟ فتویٰ عطا فرما کر ثواب حاصل کریں! جواب: انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کھانے کی اشیاء یا کوئی اور سامان مدت معلوم کے ادھار پر بیچے خواہ وہ بیع کے وقت کی قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے اور مقروض کو چاہیے کہ وہ مقررہ مدت پر قرض کو ادا کر دے جیسا کہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا تقاضا ہے: (فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللّٰهَ رَ‌بَّهُۥ) (البقرة 2/183) ’’اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کر دے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: (مَنْ أَخَذَ أَمْوَالِ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا، أَدَّى اللّٰهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلافَهَا أَتْلَفَهُ اللّٰهُ) (صحيح البخاري‘ الاستقراض‘ باب من اخذ اموال الناس...الخ‘ ح: 2387) ’’جو شخص لوگوں کے اموال لے اور انہیں ادا کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ادا کرنے کے اسباب مہیا فرما دیتا ہے اور جو لوگوں کے اموال لے اور انہیں تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع کر دیتا ہے۔‘‘ اور جب کوئی انسان کسی سٹور یا دوکان سے کوئی سامان خریدے اور مالک گن کر اسے دے دے تو مشتری (خریدار) کے لیے اسے اسی جگہ بیچنا جائز نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اسے اپنے قبضہ میں لے کر کسی دوسری جگہ منتقل کرے، کیونکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم بن حزام کی روایت بیان فرمائی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کچھ اشیاء خریدتا ہوں، ان کی کون سی صورت حلال اور کون سی حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: (إِذَا اشْتَرَيْتَ بَيْعًا فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ) (مسند احمد: 3/402) ’’جب تم سودا خریدو تو اسے اس وقت تک نہ بیچو جب تک اپنے قبضہ میں نہ لے لو۔‘‘ اسی طرح امام احمد اور ابوداود نے حضرت زید بن ثابت کی اس روایت کو بیان کیا ہے: (نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ، حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في بيع الطعام قبل ان يستوفي‘ ح: 3499) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ سودے کو وہاں بیچا جائے جہاں سے اسے خریدا ہو، اور یہ اس وقت تک جائز نہیں جب تک تاجر سامان کو اپنی جگہوں پر منتقل نہ کر لیں۔‘‘
Flag Counter