Maktaba Wahhabi

436 - 531
اور امام احمد اور مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو بھی بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِذَا ابْتَعْتَ طَعَامًا فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَهُ) (صحيح مسلم‘ باب بطلان بيع المبيع قبل القبض‘ ح: 1529) ’’جب تم غلہ خریدو تو اسے اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کو اپنے قبضہ میں نہ لے لو۔‘‘ مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: (مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَكْتَالَهُ) (صحيح مسلم‘ البيوع‘ باب بطلان بيع المبيع قبل البعض‘ ح: 1525‘1528) ’’جو شخص غلہ خریدے وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے تول کر اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ ادھار کی وجہ سے سامان کو زیادہ قیمت پر خریدنا سوال: میں جس کمپنی میں ملازم ہوں، اس سے میں نے زیادہ قیمت پر مکان خریدا ہے کیونکہ میں ایک کم آمدنی والا ملازم ہوں، تو کیا یہ وہ سود تو شمار نہ ہو گا، جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے؟ جواب: یہ وہ سود نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے بشرطیکہ آپ کے معاہدہ کرنے سے قبل کمپنی اس مکان کی مالک ہو۔ اگر انسان کسی چیز کو اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ پر ادھار کی صورت میں خریدے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے جواز پر مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایا ہے اور پھر اس میں بائع و مشتری دونوں ہی کی مصلحت ہے۔ بائع کا فائدہ یہ ہے کہ اسے قیمت زیادہ ملتی ہے اور مشتری کا فائدہ یہ ہے کہ اسے قیمت ادا کرنے کے لیے مہلت مل جاتی ہے اور یہ سود نہیں ہے کیونکہ سود تو کچھ معین اشیاء کے ساتھ مخصوص ہے جو کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور ہیں اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 1587) ’’ سونا سونے کے ساتھ، چاندی چاندی کے ساتھ، گندم گندم کے ساتھ، جو جو کے ساتھ، کھجور کھجور کے ساتھ اور نمک نمک کے ساتھ، جب کہ وہ ایک جیسے، برابر برابر اور دست بدست ہوں۔‘‘ ان چھ اشیاء اور جو علت میں ان میں شریک ہوں (حسب اختلاف علماء) ان میں سود ہے اور جو چیز اپنی ہی جنس کے ساتھ بیچی جا رہی ہو، اس کے لیے دو شرطیں ہیں۔ (1)تول والی اشیاء وزن میں اور ناپ والی اشیاء ناپ میں برابر ہوں۔ (2) فریقین الگ الگ ہونے سے پہلے قبضہ میں لے لیں اور اگر کوئی چیز کسی دوسری جنس کے ساتھ بیچی جا رہی ہو تو پھر مساوی ہونا شرط نہیں ہے، لیکن جب اسے کسی ایسی چیز کے ساتھ بیچا جا رہا ہو جو اس کے ساتھ علت میں اشتراک رکھتی ہو تو پھر ضروری ہے کہ دونوں الگ الگ ہونے سے پہلے اسے قبضہ میں لے لیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
Flag Counter