Maktaba Wahhabi

443 - 531
کے لیے یہ جائز نہیں کہ اسے اپنے قبضہ و ملکیت میں لیے یا بازار میں منتقل کئے بغیر قرض دہندہ ہی کے پاس فروخت کر دے۔ قرض دہندہ کے پاس اس قیمت سے کم پر بیچنا بھی جائز نہیں جس پر اس نے خود خریدا ہو کیونکہ اس صورت کو سود کے لیے ایک حیلہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سامان کو قرض دہندہ کے پاس اس قیمت سے کم پر بیچنا جس پر اس سے خریدا ہو صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بیع عینہ ہے جو سودی بیوع میں سے ہے۔ واللّٰه ولی التوفیق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ قسطوں کے ساتھ بیع سوال: ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میرے پال مال ہے اور میں گاڑیوں کی نقد خریداری میں اس کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں۔ گاڑی کی قیمت نو ہزار ریال ہے لیکن میں اسے ایک سال یا دو سال کی مدت کے لیے قسطوں پر چودہ ہزار یا دس ہزار ریال میں فروخت کر دیتا ہوں جب کہ دو ہزار یا تین ہزار ریال پیشگی بھی لے لیتا ہوں لیکن مجھے (اس میں) شک ہے کہ کیا یہ بیع صحیح ہے یا سودی ہے؟ میں دو سال سے اس طرح کی بیع کر رہا ہوں تو جو اب تک ہو چکا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَأَحَلَّ ٱللّٰهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟) (البقرة 2/275) ’’اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جن بیوع کو حلال قرار دیا ہے، ان میں ادھار کی بیع بھی ہے اور اس کے جائز ہونے کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِٱلْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ ٱللّٰهُ) (البقرة 2/282) ’’اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں سے کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ انصاف سے لکھے اور نیز لکھنے والا جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے۔‘‘ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ قرض کے لین دین کی تمام صورتوں کو شامل ہے۔’’صحیحین‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے[1] کہ بریرہ کو اس کے مالکان نے نو اوقیوں میں (اسے) بیچا جسے نو قسطوں میں ادا کرنا تھا اور ہر سال ایک اوقیہ کی قسط تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کو برقرار رکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاملہ کی یہ صورت جائز ہے جس کے بارے میں سائل نے پوچھا ہے اور وہ اس آیت مذکورہ کے عموم میں داخل ہے۔ وباللّٰه التوفيق وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وعلي آله وصحبه وسلم
Flag Counter