Maktaba Wahhabi

449 - 531
کیونکہ عینہ تو جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو ادھار پر کوئی سامان بیچ دے اور پھر وہ نقد ادا کرکے کم قیمت پر اس سے خرید لے،اس صورت میں بسا اوقات بائع کی اسے خریدنے کی نیت بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود یہ حرام ہے اور حیلہ ساز بائع کی اس بات سے یہ معاملہ جائز نہیں ہو جاتا کہ میں نے اسے اس سامان کے خریدنے پر مجبور تو نہیں کیا، کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ مشتری نے اپنی ضرورت ہی کی وجہ سے تو اس سے اس کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس کے خریدنے سے رکے گا بھی نہیں کیونکہ جو لوگ اس طرح سامان خریدنا چاہتے ہیں، ہم نے نہیں سنا کہ کوئی اس کے خریدنے سے باز رہا ہو۔ حیلہ ساز تاجر نے اپنے لیے بظاہر احتیاط سے کام لیا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ مشتری اسے ضرور خریدے گا الا یہ کہ اسے سامان میں کوئی عیب یا اس کی کوالٹی میں کوئی نقص نظر آئے۔ اگر کہا جائے کہ جب یہ معاملہ سود کے لیے حیلہ ہے تو کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جس سے یہ مسئلہ سود کے بغیر بھی حل ہو جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور رحمت کے ساتھ اپنے بندوں سے مصلحتوں کے دروازے کو بند نہیں کیا، اگر اللہ تعالیٰ نے ضرر کی وجہ سے ایک چیز کو اپنے بندوں کے لیے حرام قرار دیا ہے تو اس نے ایسے کئی دروازے بھی کھول دئیے ہیں جو ضرر کے بغیر بندوں کی مصلحتوں پر مشتمل ہیں۔ اس معاملہ میں سلامتی کا راستہ یہ ہے کہ یہ سامان تاجر کے پاس موجود ہونا چاہیے جسے وہ خریداروں کو ادھار بیچ دے، خواہ ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرے اور میرا خیال ہے کہ بڑے تاجر ایسے سامان خریدنے سے عاجز نہیں ہوتے جن کی خریداری میں لوگوں کی بہت دلچسپی ہو تاکہ وہ اپنی پسندیدہ قیمت کے ساتھ بیچ سکیں اور انہیں سود سے محفوظ رہ کر مطلوبہ نفع بھی حاصل ہو سکے، اور اگر ان کی نیت ان خریداروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہو جو نقد قیمت ادا کر کے خریدنے سے عاجز و قاصر ہوں تو انہیں امید ہے کہ آخرت میں اجروثواب بھی ملے گا کہ ارشاد نبوی ہے: (إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لامْرِئٍ مَا نَوَى ) (صحيح البخاري‘ بدء الوحي‘ باب كيف كان بدء الوحي...الخ‘ ح: 1 وصحيح مسلم‘ الامارة‘ باب قوله صلي اللّٰه عليه وسلم انما الاعمال بالنية...الخ‘ ح: 1907) ’’تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘ سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ کمپنی اسے ہی کہہ دیتی ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ سامان کو خرید لے، اگر کمپنی نے اسے اپنا وکیل بنایا ہے تو پھر وہ وہی مسئلہ ہے جس کے بارے میں ہم نے گفتگو کی ہے اور اگر کمپنی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے لیے سامان خریدے تو یہ ایسا قرض ہے جو موجب منفعت ہے اور اس کے صریحا ربا ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ جائز بیع سلم کے چند مسائل سوال: جب کوئی شخص ضرورت مند ہو اور وہ کسی سے کچھ نقد رقم اس شرط پر ادھار لے کہ وہ ایک معین مدت کے بعد اس رقم کے عوض اتنے صاع گندم یا مکئی دے دے گا لیکن جب یہ سودا کرتا ہے، اس وقت گندم یا مکئی ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہے؟
Flag Counter