Maktaba Wahhabi

453 - 531
ہو کہ جب آپ خریدار کو بتائیں تو وہ گویا اس کو دیکھ رہا ہو تو پھر اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ حدیث کے عموم میں داخل ہے: (الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ) (جامع الترمذي‘ الاحكام‘ باب ما ذكر عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في الصلح بين الناس‘ ح: 1352 وسنن ابي داود‘ ح: 3594) ’’مسلمانوں کو اپنی شرطوں کا پاس کرنا چاہیے۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ نفع کی حد اور بھاؤ مقرر کرنا سوال: کیا تجارت میں نفع کی کوئی حد مقرر ہے؟ بھاؤ مقرر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے کہ یہ تو اللہ عزوجل کی طرف سے رزق ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی انسان کو رزق کثیر سے نوازتا ہے کہ اسے کبھی دس فی صد یا اس سے بھی زیادہ نفع ہو جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے اس نے سستے بھاؤ کوئی چیز خریدی ہو اور پھر نرخ میں اضافہ ہو جانے کی وجہ سے اسے زیادہ نفع ہو گیا ہو اور کبھی صورت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے کوئی چیز مہنگی خریدی ہو اور پھر بعد میں وہ بہت سستی ہو گئی ہو، بس جائز نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر سامان اور اس کی مارکیٹنگ اسی انسان سے مخصوص ہو تو پھر اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ لوگوں سے بہت زیادہ نفع لے کیونکہ اس صورت میں یہ بیع المضطر کے مشابہہ ہو گا کیونکہ جب لوگوں کو جس چیز کی حاجت ہو اور وہ صرف ایک ہی معین شخص کے پاس موجود ہو تو لوگ اسی سے خریدیں گے خواہ اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، تو اس صورت میں حکومت اور حکمرانوں کو مداخلت کر کے نرخ مقرر کرنا چاہیے اور مناسب نفع کا تعین کر دینا چاہیے کہ جو اس قدر کم بھی نہ ہو کہ اسے نقصان پہنچے اور نہ اس قدر زیادہ ہو کہ دوسروں کو نقصان پہنچے، اس سے معلوم ہوا کہ بھاؤ مقرر کرنے کی دو قسمیں ہیں: 1۔ لوگوں پر ظلم اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے جس بھاؤ کے مقرر کرنے کے لیے حکمران مجبور ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا تعلق سیاست حسنہ سے ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (لَا يحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب تحريم الاحتكار في الاقوات‘ ح: 1605) ’’صرف خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔‘‘ اور خطا کار وہ ہے جو جان بوجھ کر خطا کا ارتکاب کرے اور اگر وہ غلطی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو تو واجب ہے کہ حکمرانوں کی وساطت سے اس کی اصلاح کی جائے کہ جب کوئی انسان کسی چیز کی ذخیرہ اندوزی کرے، سامان کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو تو حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ مداخلت کریں اور نفع کی ایک ایسی حد مقرر کر دیں جس سے بائع کو بھی نقصان نہ ہو اور مشتری کو بھی فائدہ ہو۔ 2۔ اگر قیمتوں میں اضافہ کسی ظلم کا نتیجہ نہ ہو بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو کہ کسی چیز کی قلت ہو گئی ہو یا اس کا کوئی اور ایسا سبب ہو جو معاشی حالات پر اثر انداز ہوا ہو تو ایسی صورت میں نرخ مقرر کرنا حلال نہیں ہے کیونکہ یہ کسی ایسے
Flag Counter