Maktaba Wahhabi

454 - 531
شخص کے ظلم کا ازالہ نہیں جس نے نرخ بڑھا دیا ہو اور پھر سب امور تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مدینہ میں قیمتوں میں اضافہ ہو اور لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ’’ یا رسول اللہ! نرخ مقرر فرما دیجئے! تو آپ نے فرمایا: (إِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في التسعير‘ ح: 3451 وجامع الترمذي‘ ح: 1314 وسنن ابن ماجه‘ ح: 2200) ’’بے شک وہ اللہ ہی نرخ مقرر فرمانے والا ہے جو کم کر دینے والا، بڑھا دینے والا اور رزق عطا فرمانے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کروں گا کہ کوئی مجھ سے خون یا مال کے ظلم کا مطالبہ نہیں کرے گا۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرخ مقرر کرنے سے انکار فرما دیا تھا کیونکہ یہ مہنگائی لوگوں کی طرف سے مصنوعی طور پر پیدا کردہ نہیں تھی۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ نرخ مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں (1) کہ اگر یہ ظلم کے ازالہ کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور (2) اور اگر یہ خود ظلم ہو یعنی اگر مہنگائی کسی انسان کے ظلم کی وجہ سے نہ ہو تو پھر نرخ مقرر کرنا بجائے خود ظلم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہو گا۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے سوال: کیا ایسی گاڑی کو خریدنا جائز ہے جس کی بازار میں قیمت مبلغ تیس ہزار ریال ہو لیکن ماہانہ قسطوں پر خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت پچاس ہزار ہو یعنی نقد اور ادھار قیمت میں بیس ہزار کا فرق ہو تو کیا اس کام میں کوئی شرعی ممانعت تو نہیں؟ جواب: عموم ادلہ کے باعث مذکورہ معاملہ میں کوئی حرج نہیں جب کہ گاڑی بائع کے قبضہ و ملکیت میں ہو۔ نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ مشتری کے حالات اور قسطوں کی مدت کے کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مالک سے اپنے آپ کو نو اوقیوں میں خریدا، جنہیں نو سالوں میں ادا کرنا تھا، [1]یعنی ایک اوقیہ فی سال قسط تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا تھا اور نہ یہ پوچھا کہ نقد بیع ہونے کی صورت میں قیمت کیا ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ شرعی نفع بازار کے رواج کے مطابق ہوتا ہے سوال: ایک دوست کچھ سامان ساٹھ اشرفیوں میں خرید کر دو سو اسی اشرفیوں میں فروخت کرتا ہے، اس بارے میں کیا
Flag Counter