Maktaba Wahhabi

464 - 531
(وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ) (المائده 5/2) ’’اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ لیا کرو۔‘‘ یہ ارشاد بھی ہے: (وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلْكِتَـٰبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ ءَايَـٰتِ ٱللّٰهِ يُكْفَرُ‌ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا۟ مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِۦٓ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ) (النساء 4/140) ’’اور اللہ نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگ جائیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب بيان كون النهي عن المنكر...الخ‘ ح: 49) ’’تم میں سے جو شخص کوئی برا کام دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے سمجھا دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے۔‘‘ اور جو ایسے لوگوں کے پاس کام کرتا ہے اس نے گویا اس برے کام کو نہ ہاتھ سے مٹایا، نہ زبان سے سمجھایا اور نہ دل ہی میں برا جانا، لہذا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ قیمت وصول کرنے سے پہلے سونا بیچنا سوال: قیمت وصول کرنے سے پہلے سونا بیچنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر کسی قریبی رشتہ دار سے فورا قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو قطع رحمی کا خدشہ ہے لیکن اس بات کا پختہ یقین ہے کہ وہ قیمت ضرور ادا کر دے گا، خواہ کچھ عرصہ بعد ہی کرے؟ جواب: واجب ہے کہ آپ یہ عمومی قاعدہ جان لیں کہ مکمل قیمت وصول کئے بغیر سونے کی دراہم (روپوں پیسوں) کے ساتھ ہرگز ہرگز بیع جائز ہی نہیں ہے اور اس اعتبار سے کسی قریبی رشتہ دار اور اجنبی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کے دین کے مقابلے میں کسی سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی وجہ سے کوئی قریبی رشتہ دار ناراض ہوتا ہے تو وہ ہوتا رہے، وہ شخص ظالم اور گناہ گار ہے جو یہ چاہتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کریں۔ آپ نے اسے اس سے روک کر درحقیقت نیکی کی ہے کہ آپ نے اسے ایک حرام معاملہ سے روک دیا ہے اور اگر اس وجہ سے وہ ناراض ہوتا ہے یا تعلقات منقطع کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہے اور آپ اس گناہ میں شریک نہیں ہیں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
Flag Counter