Maktaba Wahhabi

494 - 531
فرمائیں گے؟ جواب: اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے بھائی کو چیک لکھتے وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سودی قرض کے لیے ہے تو اسے کوئی گناہ نہیں ہے اور وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا جس میں سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ یہ سود کے لیے حیلہ ہے سوال: مجھے سعودیہ کے ایک شہر میں مکان بنانے کے لیے قرض کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں ایک شخص کے پاس گیا اور اس سے میں نے قرض مانگا، تو اس نے کہا کہ میں تجھے گاڑی دیتا ہوں یہ کہہ کر اس نے مجھے بارہ ہزار ریال دئیے لیکن اپنے پاس اس نے اکیس ہزار لکھ لیے حالانکہ میں نے نہ کوئی گاڑی دیکھی اور نہ مجھے اس کے رنگ ہی کا علم ہے۔ اس نے فقط اس کی رسید لکھی اور مجھے کہا کہ ہر ماہ ایک ہزار ریال دے دیا کرو، اس وقت تو میں راضی ہو گیا کیونکہ میں محتاج تھا اور مجھے رقم کی ضرورت تھی لیکن اب جب کہ میں ساڑھے آٹھ ہزار ریال دے چکا ہوں تو پھر بھی میرے ذمہ بارہ ہزار پانچ سو ریال باقی ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس کے رأس المال سے زائد رقم ادا کرنا بھی کیا میرے لیے لازم ہے؟ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے، جزاکم اللّٰه خیرا۔ جواب: جب امر واقع اسی طرح ہے جسے سائل نے ذکر کیا ہے تو یہ معاملہ بالکل باطل ہے کیونکہ اس میں ربا الفضل بھی ہے اور ربا النسیئہ بھی۔ لہذا جس نے آپ کو قرض دیا ہے اسے صرف اپنا راس المال بھی بارہ ہزار ریال ہی لینے چاہئیں کیونکہ اس نے آپ کو گاڑی نہیں دی اور نہ اسے بیچا ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے بلکہ اس نے تو آپ کو دراہم کے بدلے دراہم دئیے ہیں، لہذا اس صورت میں آپ سے زیادہ لینا بالکل غلط اور صریحا سود ہے۔ لہذا تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ کبھی بھی اس طرح کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ دونوں کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ یہ بھی سودی حیلہ ہے سوال: میرے پاس چاول کی کچھ بوریاں سٹور میں پڑی ہیں، کچھ لوگ میرے پاس آ کر بازار کی قیمت کے حساب سے خرید لیتے اور دوسرے لوگوں کو ادھار دے دیتے ہیں اور جب یہ چاول مقروض کے حصے کے ہو جاتے ہیں تو میں اس سے ایک ریال کم قیمت پر خرید لیتا ہوں، پھر کچھ اور لوگ آتے ہیں اور وہ مجھ سے خرید لیتے ہیں، ہاں البتہ یہ لوگ اسے خرید کر اپنی جگہ منتقل کر لیتے ہیں کیا اس طرح کی خریدوفروخت میں کوئی گناہ تو نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب: یہ طریقہ سود کا ایک حیلہ ہے اور سود بھی مغلظ ہے جس میں فضل اور نسیئہ کی دونوں قسمیں جمع ہیں کیونکہ قرض دہندہ اس طریقے سے زیادہ مثلا دس کے بدلے بارہ ریال حاصل کرنا چاہتا ہے اور قرض دینے اور لینے والا کبھی کبھی صاحب
Flag Counter