Maktaba Wahhabi

498 - 531
بھی ہے کیونکہ یہ بینک سود کی بنیادوں پر کام کرتا ہے اور جیسا کہ آپ نے ذکر بھی کیا ہے کہ آپ ایک ڈالر کے دو ڈالر حاصل کر لیتے ہیں تو یہ اضافہ سود ہونے کی وجہ سے صریحا حرام ہے۔ لہذا آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ اس کام سے توبہ کریں، اسے بالکل چھوڑ دیں اور اس کے بجائے ایسا جائز طریقہ اختیار کریں جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہو۔ شرعی حکم سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس طرح آپ نے جو مال کمایا ہے تو اسے اپنے پاس رکھنے اور اس سے بنائی ہوئی جائیداد اور اس سے ادا کئے ہوئے مہر اور نان و نفقہ میں کوئی حرج نہیں۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ یہ مال سود نہیں ہے سوال: ہم سوڈان سے کچھ لوگ آئے ہیں جنہوں نے ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور جب ہم اس کمپنی کے دفتر میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کمپنی نے بینکوں کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں اور بینک تو اپنے گاہکوں کے ساتھ سودی معاملہ کرتے ہیں۔ ہم اس کمپنی میں اس کی حفاظت کے لیے چوکیدار کے طور پر کام کرتے ہیں اور یہ بینک سے لیے ہوئے قرض سے بہت معمولی مقدار میں ہمیں تنخواہ دیتی ہے تو ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ تو سود ہے کیونکہ ہمیں یہ تنخواہ اس کمپنی سے ملتی ہے جو بینک سے سودی لین دین کرتی ہے، امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے کیا یہ سود ہے؟ جواب: مجھے اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ آپ تو کمپنی میں کام کرتے ہیں اور بینک کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ آپ تو کمپنی کی حفاظت کے لیے چوکیدار کے طور پر کام کرتے ہیں اور یہ آپ کو تنخواہ ادا کرتی ہے، باقی رہا اس کا بینکوں کے ساتھ معاملہ تو اکثر کمپنیاں اکاؤنٹ رکھنے، گارنٹی فراہم کرنے، درآمد و برآمد اور قرض وغیرہ کے سلسلہ میں بینکوں ہی سے معاملہ کرتی ہیں تو گناہ سودی معاملہ کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کو ہو گا۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ ڈالروں کی قسطوں پر خریداری سوال: میں ایک شخص سے دس ہزار امریکی ڈالر، چالیس ہزار سعودی ریال میں اس شرط پر خریدنا چاہتا ہوں کہ ہر ماہ ایک ہزار ریال کی قسط ادا کر دوں گا اور پھر ان ڈالروں کو بازار میں سینتیس ہزار پانچ سو ریال میں فروخت کر دوں گا، تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے، جب کہ مجھے اس رقم کی ضرورت ہے؟ جواب: اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ رقوم کا فرق کے ساتھ تبادلہ حرام ہے، نیز یہ تبادلہ ایک ہی مجلس میں باہمی قبضہ کی صورت میں ہونا چاہیے۔ تو اس سوال میں بیان کی گئی صورت میں عوض ثانی یعنی ڈالروں کی قیمت کا قبضہ موجود نہیں ہے، لہذا یہ معاملہ فاسد اور باطل ہے۔ اور اب جب یہ معاملہ ہو چکا ہو تو ڈالر لینے والے کو چاہیے کہ وہ ڈالرہی واپس کرے اور پہلے طے ہونے والے معاہدہ کو ختم کر دے کیونکہ یہ فاسد ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللّٰهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللّٰهِ أَحَقُّ،
Flag Counter