Maktaba Wahhabi

509 - 531
خامسا: ہر وہ مال جو سودی نفع کے طور پر حاصل ہو وہ شرعا مال حرام ہے، لہذا کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خود یا اس کے اہل خانہ میں سے کوئی اپنی کسی بھی ضرورت کے لیے استعمال کرے بلکہ واجب ہے کہ اسے مسلمانوں کی بہبود کے عام منصوبوں مثلا سکولوں یا ہسپتالوں وغیرہ پر خرچ کر دیا جائے یہ صدقہ تو نہیں ہو گا لیکن اس سے ان کا مال حرام سے پاک ہو جائے گا۔ سودی فوائد کو سودی بینکوں ہی میں رہنے دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے سودی بینکوں کو تقویت حاصل ہو گی اور اگر یہ بینک غیر ملکی ہو تو اس میں سودی رقم چھوڑ دینے میں اور بھی زیادہ گناہ ہے کیونکہ یہ رقم عموما عیسائی اور یہودی اداروں پر خرچ کی جاتی ہے اور اس طرح مسلمانوں کے مال مسلمانوں ہی کے خلاف جنگ میں اسلحہ کے طور پر اور مسلمانوں کی اولاد کو ان کے عقیدے سے دور کر کے گمراہ کر دینے میں صرف ہوتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ نفع لیے یا نہ لیے بغیر ان سودی بینکوں کے ساتھ ہمیشہ لین دین کرتے رہنا بھی جائز نہیں ہے۔ کونسل اسلامی بینکوں کی انتظامیہ سے یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ان بینکوں میں کام کرنے کے لیے وہ نیک مسلمانوں کا انتخاب کرے اور ان کے لیے اسلامی احکام و آداب کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے تاکہ ان کے تمام معاملات اور تصرفات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ واللّٰه الموفق والهادي الي سواء السبيل۔ مجلۃ الدعوۃ نمبر: 1037 سودی بینکوں کے ساتھ کاروبار سودی بینکوں کے ساتھ لین دین کے بارے میں حکم سوال: درج ذیل لوگوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ *جو اپنا سرمایہ بینک میں رکھتا اور سال ختم ہونے پر سود لیتا ہے۔ *جو بینک سے سود پر قرض لیتا ہے۔ *جو شخص بینک میں سرمایہ تو رکھتا ہے لیکن سود نہیں لیتا۔ *وہ صاحب جائیداد جو اپنی عمارتیں بینکوں کو کرایہ پر دیتا ہے۔ جواب: بینکوں میں سود پر سرمایہ رکھنا یا سود پر بینکوں سے قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ صریحا سود ہے۔ سود پر بینکوں کے سوا کسی اور جگہ سرمایہ رکھنا بھی جائز نہیں ہے اور نہ کسی سے سود پر قرض لینا جائز ہے کیونکہ یہ تمام صورتیں اہل علم کے نزدیک حرام ہیں، اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَأَحَلَّ ٱللّٰهُ ٱلْبَيْعَ) (البقرة 2/275) ’’اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘ اور فرمایا:
Flag Counter