Maktaba Wahhabi

515 - 531
(هُمْ سَوَاءٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598) ’’یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ بینکوں میں ماہانہ یا سالانہ نفع کی بنیاد پر سرمایہ رکھنا سود اور باجماع علماء حرام ہے اور بغیر نفع کے بارے میں بھی زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ ضرورت کے بغیر نہ رکھا جائے کیونکہ اگر بینک سودی کاروبار کرتا ہے تو اس میں سرمایہ رکھنے میں سودی کاموں میں تعاون ہے خواہ سرمایہ رکھنے والا سود نہ بھی لے، لہذا اس صورت میں خدشہ ہے کہ کہیں یہ بھی گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون کرنے والوں میں شامل نہ ہو جائے خواہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہ بھی ہو، لہذا واجب ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اپنے سرمایہ کی حفاظت اور تصرف کے لیے ایسے طریقے استعمال کئے جائیں جو پاک ہوں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لیے باعث سعادت، عزت اور نجات ہوں اور انہیں جلد از جلد ایسے اسلامی بینک قائم کرنے کی سعادت عطا فرمائے جو سود سے پاک ہوں۔ بے شک وہی قادر و کارساز ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ بینکوں کے ذریعے سرمایہ کی منتقلی سوال: کیا ایک مسلمان کے لیے ان بینکوں کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے جو سرمایہ پر سود دیتے اور قرض پر سود لیتے ہیں؟ جواب: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا سرمایہ کسی ایسے بینک میں رکھے جو اسے سالانہ معین مقدار میں سود دیتا ہو اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ سودا ادا کرنے کی شرط پر کسی بھی بینک سے قرض لے مثلا یہ کہ جب وہ بینک کا سرمایہ واپس کرے گا تو اس سے پانچ فی صد سود بھی ادا کرے گا۔ یہ دونوں صورتیں کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل کے عموم میں داخل ہیں جو سود کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے۔والحمداللہ! جہاں تک سود کے بغیر بینکوں میں اپنا سرمایہ محض بطور امانت رکھنےکی بات ہے تو اگر آدمی مجبور و مضطر نہ ہو تو پھر جائز نہیں کیونکہ یہ بینک مالکان کے ساتھ سودی معاملات میں تعاون ہو گا اور اشراد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ‌ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ) (المائده 5/2) ’’اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔‘‘ اور اگر کوئی شخص بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنے کے لیے مجبور ہو تو پھر ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہ ہو گا۔ ایک بینک کے ذریعے دوسرے بینک میں سرمایہ کی منتقلی میں کوئی حرج نہیں خواہ منتقلی کی خدمات سرانجام دینے والا بینک سرچارج وصول کرے کیونکہ یہ سر چارج در حقیقت منتقلی کے کام کی اجرت ہوتی ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
Flag Counter