Maktaba Wahhabi

519 - 531
اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پابندی کریں اور اس کی مخالفت سے اجتناب کریں۔ انه خير مسؤول ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ سودی بینکوں میں کام گناہ میں تعاون ہے سوال: میرا ایک چچا زاد بھائی ایک بینک میں کلرک کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسے بعض علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ وہ یہ کام نہ کرے اور اسے چھوڑ کر کوئی اور ملازمت تلاش کرے۔ آپ رہنمائی فرمائیں، کیا اس کے لیے بینک میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب: جنہوں نے مذکورہ فتویٰ دیا ہے انہوں نے بہت اچھا فتویٰ دیا ہے کیونکہ سودی بینکوں میں کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ‌ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ ۖ إِنَّ ٱللّٰهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٢﴾ (المائده 5/2) ’’اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا: (هُمْ سَوَاءٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598) ’’یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ سودی اداروں میں کام کرنے کے بارے میں حکم سوال: کیا کسی سودی ادارے میں ڈرائیور یا چوکیدار کے طور پر کام کرنا جائز ہے؟ جواب: سودی اداروں میں کام کرنا جائز نہیں خواہ انسان ڈرائیور یا چوکیدار کے طور ہی پر کیوں نہ کام کرے کیونکہ سودی اداروں میں ملازمت کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان کے کام سے خوش ہے کیونکہ جو شخص کسی حرام کام سے خوش ہو تو وہ گناہ میں شریک ہو گا اور جو شخص ان اداروں میں براہ راست ملوث ہے کہ وہ ان کے حساب کتاب کو لکھتا ہے یا ان سے لین دین کرتا ہے یا اس طرح کے کسی اور کام میں شریک ہے تو وہ بلاشبہ حرام کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا: (هُمْ سَوَاءٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598) ’’یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
Flag Counter