Maktaba Wahhabi

534 - 531
(الْخِتَانُ سُنَّةٌ للِرِّجَالٍ، وَمَكْرُمَةٌ لِلنِّسَاءِ) (مسند احمد: 5/75) ’’ختنہ مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے باعث عزت۔‘‘وباللّٰه التوفيق‘ وصلي اللّٰه علي محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ نفع کے ساتھ قرض سوال: کیا بینک کے ساتھ معاملہ ربا ہے یا جائز ہے؟ یہ سوال اس لیے پوچھا گیا ہے کہ بہت سے ہم وطن بینکوں سے قرض لیتے ہیں۔ جواب: مسلمان کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی سے بھی سونا یا چاندی یا نقدی اس شرط پر قرض لے کہ وہ واپسی پر اس سے زیادہ ادا کرے گا، خواہ قرض دینے والا کوئی بینک ہو یا کوئی اور ہو کیونکہ یہ سود ہے، اور سود کبیرہ گناہ ہے اور جو بینک اس طرح کا معاملہ کرے وہ سودی بینک ہے۔ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ نفع کے ساتھ قرض جائز نہیں سوال: میں ایک ملازم ہوں، میری تنخواہ 3048 ریال ہے۔ میں ایک سال سے شادی شدہ ہوں اور میرے ذمہ ترپن ہزار ریال قرض ہے۔ قرض دینے والے مجھ سے اکثر اپنے قرض کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن میرے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں کسی ایسے بینک سے قرض لے لوں جو نفع پر قرض دیتا ہے۔ بینک جو قرض مجھے دے گا اس سے میرے ذمہ جو قرض ہے وہ آدھا بھی ادا نہیں ہو گا۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا؟ جواب: کسی بھی مسلمان کے لیے بینک سے یا کسی اور سے نفع کی شرط کے ساتھ قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بہت بڑا سود ہے، لہذا اسے چاہیے کہ وہ طلب رزق اور ادائے قرض کے لیے جائز اسباب اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ نے جن معاملات اور کمائی کے طریقوں کو مباح قرار دیا ہے وہ حرام سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔ قرض دینے والوں کو جب آپ کی تنگ دستی کا علم ہو تو انہیں چاہیے کہ آپ کو آسانی تک مہلت دیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَ‌ةٍ فَنَظِرَ‌ةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَ‌ةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا۟ خَيْرٌ‌ۭ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٨٠﴾ (البقرة 2/280) ’’اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو (اسے) کشائس (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو)، اور اگر (قرض) بخش دو تو وہ تمہارے لیے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا،أَظَلَّهُ اللّٰهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلا ظِلُّهُ) (مسند احمد: 3/427 وصحيح مسلم‘ الزهد‘ باب حديث جابر الطويل...الخ‘ ح: 3006)
Flag Counter