Maktaba Wahhabi

537 - 531
جواب: واجب تو یہی ہے کہ وہ آپ کو ڈالر ہی ادا کرے کیونکہ آپ کی طرف سے اسے جو قرض ملا تھا وہ ڈالروں ہی کی صورت میں تھا، لیکن اگر آپ آپس میں اس بات پر مصالحت کر لیں کہ وہ مصری گنیوں میں ادا کر دے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ’’بقیع یا نقیع میں درہموں کے ساتھ اونٹ بیچتے اور دیناروں میں ان کی قیمت وصول کرتے تھے اور دیناروں میں بیچ کر درہموں میں قیمت وصول کرتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا، مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في اقتضاء الذهب من الورق‘ ح: 3354 وسنن النسائي‘ ح: 4586) ’’اس میں کوئی حرج نہیں جب کہ آپ بیع کے دن کے نرخ کے حساب سے لیں جب کہ بائع اور مشتری کی علیحدگی کے وقت دونوں میں کوئی بات طے ہونے والی باقی نہ رہ گئی ہو۔‘‘ یہ کرنسی کی دوسری کرنسی کے ساتھ بی ہے، یعنی یہ سونے کی چاندی کے ساتھ بیع کے مشابہہ ہے۔ اگر آپ اور وہ اس بات پر متفق ہو جائیں کہ وہ ان ڈالروں کے عوض مصری گنیاں ادا کرے گا بشرطیکہ آپ اس سے زیادہ گنیاں نہ لیں جو اس وقت آپ کے ادا کئے ہوئے ڈالروں کے مساوی تھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مثلا اگر دو ہزار ڈالر اب 2800 گنیوں کے مساوی ہیں تو آپ کے لیے تین ہزار گنیاں لینا جائز نہیں ہے، ہاں آپ 2800 گنیاں یا دو ہزار ڈالر لے سکتے ہیں یعنی آپ آج کے نرخ کے مطابق یا اس سے کم لیں، زیادہ نہ لیں کیونکہ زیادہ لینے کی صورت میں آپ اس مال پر نفع لیں گے جو آپ کی کفالت میں نہیں ہے اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے نفع سے منع فرمایا ہے جو کفالت میں نہ ہو اور کم لینے کی صورت میں آپ اپنے بعض حق کو لے رہے ہیں اور بعض کو معاف کر رہے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ ہر وہ قرض ربا ہے جو نفع بخش ہو سوال: ایک آدمی نے دوسرے سے قرض مانگا تو اس نے اس شرط پر قرض دیا کہ وہ قرض کی رقم کے عوض اس کی زرعی زمین اپنے پاس رہن رکھے گا اور کاشت کاری بھی کرے گا اور اس کا سارا غلہ خود رکھ لے گا یا آدھا خود رکھے گا اور آدھا زمین کے مالک کو دے دے گا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مقروض وہ سارا قرض ادا نہیں کر دیتا جو اس نے لیا تھا، قرض ادا کرنے کے بعد ہی وہ اپنی زمین واپس لے سکے گا۔ اس مشروط قرض کے بارے میں آپ کی رائے میں حکم شریعت کیا ہے؟ جواب: قرض تو نرمی کے معاہدوں میں سے ہے اور اس سے مقصود مقروض کے ساتھ نرمی اور احسان ہوتا ہے اور نرمی و احسان وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب و مطلوب ہیں کیونکہ اس میں بندگان الہٰی کے ساتھ احسان ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾ (البقرة 2/195) ’’اور نیکی کرو بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ قرض دہندہ کے لیے یہ مشروع و مستحب ہے اور مقروض کے لیے جائز اور مباح ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم
Flag Counter