Maktaba Wahhabi

538 - 531
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے اونٹ قرض لیا تھا اور پھر آپ نے اس سے بہتر اونٹ واپس کیا۔[1] قرض جب نرمی اور احسان کا معاہدہ ہے تو پھر یہ جائز نہیں کہ اسے معاوضہ و نفع کے معاہدہ سے بدل دیا جائے کیونکہ یہ اپنے موضوع سے خارج ہو کر بیع اور معاوضہ کے موضوع میں داخل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے سے یہ کہے گا کہ ’’میں تجھے یہ دینار، دوسرے دینار کے عوض ایک سال کے لیے فروخت کرتا ہوں ، یا یہ کہے کہ یہ دینار، دوسرے دینار کے عوض فروخت کرتا ہوں،‘‘ اور پھر دونوں دینار کو قبضہ میں لینے سے پہلے الگ ہو جائیں تو بیع حرام اور ربا ہو گی لیکن اگر وہ اسے ایک دینار بطور قرض دے اور وہ اسے چھ ماہ یا ایک سال بعد واپس کر دے تو یہ جائز ہے حالانکہ قرض دہندہ نے اس کے عوض کو چھ ماہ بعد یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد نرمی کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے واپس لیا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ اگر کوئی قرض دہندہ مقروض کے ساتھ کسی مادی نفع کی شرط لگائے تو یہ معاملہ قرض کے موضوع سے خارج ہونے کی وجہ سے حرام ہو جائے گا کیونکہ اہل علم کے ہاں ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض جو نفع کا باعث ہو وہ ربا ہے، لہذا قرض دہندہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مقروض سے کہے کہ میں اس شرط پر قرض دوں گا کہ تم اپنی زمین زراعت کے لیے مجھے دو خواہ وہ اسے اس زمین کی پیداوار سے حصہ بھی دے دے۔ اس صورت میں قرض سے چونکہ قرض دہندہ کو نفع حاصل ہوتا ہے اس لیے یہ قرض اپنے اصلی موضوع نرمی اور احسان سے خارج ہو جانے کی وجہ سے قرض ہی نہیں رہتا۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ مال حرام سے قرض لینا سوال: کیا کسی ایسے شخص سے قرض لینا جائز ہے، جس کا کاروبار حرام ہو اور وہ حرام لین دین کرتا ہو؟ جواب: میرے بھائی! اس طرح کے آدمی سے نہ قرض لینا چاہیے اور نہ کوئی اور معاملہ کرنا چاہیے۔ جب تک اس کے معاملات حرام ہوں، وہ سودی کاروبار کرتا ہو یا کوئی اور حرام معاملہ کرتا ہو تو اس سے لین دین نہ کریں اور نہ اس سے قرض لیں بلکہ واجب ہے کہ ایسے شخص سے دور ہو جائیں، اور اگر وہ حرام اور غیر حرام معاملہ کرتا ہو یعنی اس کے کاروبار میں پاک اور ناپاک کی آمیزش ہو تو پھر اس سے معاملہ کرنے میں اگرچہ کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ اس صورت میں بھی احتیاط کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (دَعْ مَا يَرِيبُكَ إلى مالا يَرِيبُك) (جامع الترمذي‘ صفة القيامة‘ باب : 60‘‘ ح: 2518وسنن النسائي‘ ح: 5714) ’’اس کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کو لے لو جس میں شک نہ ہو۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا ہے: (مَنِ اتَّقَى الشُّبَهَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ) (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب فضل من استبرا لدينه‘ ح: 52 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب اخذ الحلال وترك الشبهات‘ ح: 1599 واللفظ له) ’’جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔‘‘
Flag Counter