Maktaba Wahhabi

540 - 531
’’بے شک بہترین لوگ وہ ہیں جو احسن انداز میں قرض ادا کریں۔‘‘ اور اس طرح اسے آپ کے احسان کا بدلہ چکانے کا موقع بھی مل جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (من صنع اليكم معروفا فكائنوه‘ فان لم تجدوا ما تكافئونه فادعوا له حتي تروا انكم قد كا فاتموه) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب عطية من سال باللّٰه عزوجل‘ ح: 1672) ’’جو شخص تم سے نیکی کرے تو اسے اس کی نیکی کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کو کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اس قدر کثرت سے دعا کرو حتیٰ کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ ہر قرض جو نفع کا باعث ہو وہ سود ہے سوال: اس شخص کے قرض دینے کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی کو اس شرط پر مدت مقررہ کے لیے قرض دیتا ہے کہ وہ بھی اسی مدت کے لیے اتنی ہی رقم اسے بطور قرض دے گا؟ کیا یہ معاملہ اس حدیث کا مصداق ہے کہ’’ ہر قرض جو نفع کا باعث ہے وہ سود ہے۔‘‘لیکن یاد رہے اس نے زیادہ قرض لینے کی شرط عائد نہیں کی۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا؟ جواب: یہ قرض جائز نہیں اس لیے کہ قرض دہندہ نے بھی اتنی ہی رقم قرض لینے کی شرط عائد کی ہے یہ عقد در عقد ہے اور ایک بیع میں دو بیعوں کے حکم میں ہے اور محض قرض دینے کے بجائے منفعت کی شرط ہے اور وہ یہ کہ وہ بھی اسے اتنی ہی رقم بطور قرض دے گا۔ اور علماء کا اجماع ہے کہ ہر وہ قرض جو منفعت زائدہ کی شرط کا متضمن ہو یا اس میں اتنی ہی مقدار میں قرض دینے کی شرط عائد کی گئی ہو تو وہ ربا ہے۔ یہ حدیث: (كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبَا) (المطالب العالية: 1/411‘ ح: 1373 و ارواء الغليل 5/235‘ ح: 1398) ’’ہر وہ قرض جو منفعت کا باعث ہو وہ سود ہے۔‘‘ضعیف ہے، لیکن حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت سے اس کے ہم معنی اقوال منقول ہیں کہ اگر قرض دیتے ہوئے نفع کی شرط عائد کی گئی ہو یا وہ حکم مشترط میں ہو یا قرض ہی کی شرط عائد کی گئی ہو تو یہ سود ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ معینہ مدت کے لیے قرض ایک مقروض فوت ہوا تو کیا اس کی روح گروی ہو گی؟ سوال: جو شخص مقروض فوت ہو جائے اور فقر کی وجہ سے وہ قرض ادا نہ کر سکا ہو تو کیا اس کی روح گروی اور معلق رہتی ہے؟
Flag Counter