Maktaba Wahhabi

549 - 531
جواب: ایسے لوگوں کو دوکانیں یا گودام کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے جو ان میں حرام اشیاء بیچیں یا سٹور کریں کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ‌ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ) (المائده 5/2) ’’اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘ اسی طرح ان لوگوں کو بھی دوکانیں کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے جو داڑھیاں مونڈتے ہیں کیونکہ داڑھی مونڈنا حرام ہے اور انہیں دوکانیں کرایہ پر دینے میں حرام کام پر اعانت اور سہولت فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی گھر وغیرہ کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے جو فعل حرام یا ترک واجب کے لیے جمع ہوتے ہوں، لیکن رہائش کے لیے مکان کرایہ پر دینا جائز ہے۔ اور اگر اس میں رہنے والا کسی معصیت یا ترک واجب کا ارتکاب کرے تو اسے گناہ نہیں ہو گا کیونکہ اس نے تو اسے مکان رہائش کے لیے دیا ہے، معصیت یا ترک واجب کے لیے نہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (إ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُل امْرِىءٍ ومَا نَوَى) (صحيح البخاري‘ بدء الوحي‘ باب كيف كان بدء الوحي...الخ‘ ح: 1 وصحيح مسلم‘ الامارة‘ باب قوله صلي اللّٰه عليه وسلم انما الاعمال بالنية...الخ‘ ح: 1907واللفظ للبخاری ) ’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘ جب دوکانوں، گوداموں اور گھروں کو کرایہ پر دینا حرام ہے تو ان سے حاصل ہونے والی کمائی بھی حرام ہے۔ پراپرٹی دفتر والے اپنی محنت اور کوشش کا ان سے جو معاوضہ لیتے ہیں وہ بھی حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (إِنَّ اللّٰهَ إِذَا حَرَّمَ شَيْئًا حَرَّمَ ثَمَنَهُ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في ثمن الخمر والميتة‘ ح: 3488 ومسند احمد : 1/247 ودارقطني: 3/7ّ ح: 2791ّ واللفظ له) ’’بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کی قیمت کو بھی حرام قرار دے دیتا ہے۔‘‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے رزق کو پاک کر دے اور اسے اپنی اطاعت کے لیے مددگار بنا دے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ شفعے کا بیان ناگزیر لوازم اور ناقابل تقسیم جائداد میں شفعہ الحمدللّٰه وحده والصلوة والسلام علي من لا نبي بعده‘ محمد وعلي آله وصحبه.وبعد:
Flag Counter