Maktaba Wahhabi

89 - 531
بدعت ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے لیے بھی کسی دن یا رات کو معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعہ کی رات وغیرہ تو یہ بدعت ہے۔ سلف صالح میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا، لہذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ )(صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697) ’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ( إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) (سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم) ’’اپنے آپ کو (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ میت کی طرف سے چالیسویں دن صدقہ سوال: کیا یہ جائز ہے کہ وفات کے چالیس دن بعد میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے؟ جواب: میت کی طرف سے صدقہ کرنا صحیح ہے لیکن کسی دن کی تحدید اور تعیین کرنا بدعت ہے۔ مستقل فتویٰ کمیٹی برائے بحوث علمیہ و افتاء کے پاس میت کی طرف سے چالیسویں دن محفل منعقد کرنے کے سلسلےمیں ایک سوال آیا تھا جس کا کمیٹی نے حسب ذیل جواب دیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالح سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں ہے، نہ وفات کے وقت، نہ وفات کے بعد ساتویں یا چالیسویں دن اور نہ ایک سال بعد بلکہ یہ بدعت اور ایک بری عادت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسم ہے لہذا جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں انہیں سمجھانا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کر لیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذُّلُّ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) (مسند احمد: 2/50) ’’مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے حتیٰ کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور ذلت و رسوائی اس کے لیے ہے جو میرے حکم کی مخالفت کرے اور جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی میں سے ہے۔‘‘
Flag Counter